آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہیں،اگر کہیں مغلوب ہوکر مبتلا ہوگیا تو رُسوا ہوجاؤں گا اور آپ سے دور ہوجاؤں گا، اس کو اپنی حفاظت کے لیے توفیقِ آہ و زاری زیادہ ہوجاتی ہے جیسا کہ مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں ؎ صد ہزاراں دام و دانہ ست اے خدا ما چو مرغانِ حریص بے نوا اے خدا!گناہوں کی لذت کے ایک لاکھ جال اور دانے پھیلے ہوئے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بھوکی چڑیوں کی طرح لالچی بھی ہیں اور بے نوا بھی ہیں کہ ہمارے پاس کچھ ہے بھی نہیں ۔ گناہوں کے دانوں کو دیکھ کر للچارہے ہیں اور اس لالچ سے خوف ہے کہ جال میں پھنس نہ جائیں،لیکن اس کے باوجود ہم آپ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ہمیں آپ ہی کا آسرا ہے ؎ گر ہزاراں دام باشد بر قدم چوں تو با ما ئی نباشد ہیچ غم اگر ہزاروں جال ہمارے قدموں پر ہیں اور ہر وقت خطرہ ہے کہ اب گناہ ہوا ، اب گناہ ہوا لیکن اگر آپ ہمارے اوپر مہربان ہیں تو ہمیں کوئی پروا نہیں، آپ ہماری حفاظت کے لیے کافی ہیں۔تقویٰ کی تعریف تقاضے کی شدت کیوں ہے؟ کیوں کہ تقویٰ کی تعریف ہے: کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی نفس کو بُری خواہش پرعمل کرنے سے روکنا۔ بُری خواہش کا فقدان یہاں مقصود نہیں ہے۔ بُری خواہش پیدا ہو اور پھر اس کو روکے یعنی اس خواہش پر عمل نہ کرے، اس کا نام تقویٰ ہے جیسے بھوکا گھوڑا ہری ہری گھاس کو دیکھ کر بے چین ہوجاتا ہے اور گھاس دس فٹ گہرائی میں ہے اور گھوڑا اس کھڈے میں کودنا چاہتا ہے تو سوار پوری طاقت سے اس کی لگام کھینچتا ہے خواہ لگام کھینچنے میں گھوڑے کا منہ زخمی ہوجائے،کیوں کہ سوار جانتا ہے کہ اگر یہ کھڈے میں کود گیا تو نہ سوار رہے گا نہ سواری۔ اسی طرح گناہوں کی ہری ہری گھاس سے اپنے نفس کی لگام کو اتنا زور سے کھینچو کہ صدمہ و غم سے دل پاش پاش ہوجائے، اسی غم کو اٹھانے کا نام تقویٰ ہے۔