آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کیاوہ سوناعطا نہیں کر سکتا؟ اللہ اپنے نبی پر سونا برسادیتا اور اپنے فرشتوں کے لشکر سے مددفرماتاجو کافروں کو ہلاک کردیتے، لیکن ایسا نہیں کیا،کیوں کہ صحابہ کو پھریہ فضیلت کیسے حاصل ہوتی اور صحابہ کی وفاداری و جاں نثاری کی تاریخ کیسے بنتی۔ لہٰذا اگرکوئی شیخ یاخادمِ دین اپنے خاص احباب کو اپنے دینی ادارہ، مسجدیامدرسہ کی تعمیر میں حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے تویہ سنت سے ثابت ہے۔ ہاں کوئی ایسا کام کرنا جو عظمتِ دین اور عزتِ نفس کے خلاف ہو مثلاً دوکان دوکان جاکر چندہ مانگنا توکوئی صاحبِ نسبت ایسا نہیں کرسکتا،لیکن اپنے خاص احباب کو بھی متوجہ نہ کرنا سنت کے خلاف ہے اوریہ دلیل ہے کہ یہ شخص دین کا کام کرناہی نہیں چاہتا،اورمریدین کو یہ ترغیب دیناشیخ کاان پراحسان ہے کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس اِنفاق سے ان کا کام بن جائے،ان کی آخرت بن جائے اور قیامت کے دن اس کا اجر دیکھ کر وہ خوش ہوجائیں۔ ۱۵؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق ۷؍اکتوبر ۱۹۹۸ء بروز بدھ، بعد مغرب ۷بجے شام،بر مکان مفتی حسین بھیات صاحب حضرت والا کی ملاقات کے لیےجنوبی افریقہ کے مختلف شہروں سے حضرت والا سےتعلق رکھنے والے اکابر علمائے کرام تشریف لا رہے ہیں اور یہ سلسلہ حضرت والا کے سفر کے دوران مستقل جاری رہتا ہے۔ آج بھی ڈربن، جوہانسبرگ ،پیٹر میرٹنربرگ ،پریٹوریا اور دیگرچھ سات شہروں سے علماء تشریف لائے۔حضرت والا نے اس مجلس میں مندرجہ ذیل ملفوظات ارشاد فرمائے:تزکیہ کےمعنیٰ اور اہمیت ارشاد فرمایا کہ حضرت مولاناشاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ مدارس سے اورتبلیغ سے اعمال کاوجودملتا ہےاورخانقاہوں سے ببرکتِ اخلاص اعمال کا قبول ملتا ہے۔ تینوں ضروری ہیں۔ مدارس بھی ضروری،تبلیغ بھی ضروری اور تزکیہ بھی ضروری۔ تزکیۂ نفس شعبۂ نبوت ہے۔ بعض نادان لوگ کہتے ہیں کہ تزکیہ ولیوں والا کام ہے۔ میں نے کہا یُزَکِّیْھِمْ ولیوں والا کام ہے؟ مقاصدِنبوت میں سے ایک اہم مقصد تزکیہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا یُزَکِّیْھِمْ ہمارانبی تزکیہ کرتاہے اورتزکیہ سے مرادطہارتِ قلب، طہارتِ نفس اورطہارتِ بدن ہے۔