آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کہتا ہے کہ نوپرابلم کوئی بات نہیں، ہمارے نزدیک گویا آپ کا کوئی قصور نہیں ہے مگر اصلی عاشق ہے تو نوپرابلم کہنے کے بعد بھی میرا بالم میرا بالم کہے گا، عاشق تو نو پرابلم میں بھی کہے گا کہ میرے بالم مجھے معاف کردو۔ کیا کہیں بس اﷲ تعالیٰ فہمِ سلیم عطا فرمائے اور اپنے عشق و محبت کے راز اور بڑی بڑی باریکیاں بھی ہم سب کو عطا کردے اور محبتِ الٰہیہ میں پی ایچ ڈی کرادے۔ نفس میں حسینوں کو دیکھ کر غیر شعوری، غیر ارادی طور پر جو خوشی آئی جو قابلِ معافی بھی ہے، بتاؤ اچانک نظر معاف ہے یا نہیں؟ لیکن ہم ا س احساسِ خوشی سے بھی شرمسار ہیں کہ آپ اس سے خوش نہیں ہیں، جس بات سے آپ خوش نہ ہوں ہم اس سے کیوں خوش ہورہے ہیں؟ اپنی اس نالائقی پر شرمسار ہو کر اے میرے پرور دگار ہم آپ سے معافی کے خواستگار ہیں۔ دیکھو کتنا قرب بڑھتا ہے! اﷲ کو کتنا پیار آئے گا کہ میرا بندہ شریعت کے مسئلے سے واقف ہے، جانتا ہے کہ اچانک نظر معاف ہے لیکن اچانک نظر سے بھی تو اس کے نفس میں مزہ اور خوشی آئی، میرا بندہ معاف شدہ اور معاف کردہ خطاؤں کی بھی معافی مانگ رہا ہے تو اﷲ کو کتنا پیار آئے گا۔غیر اللہ پر مرنے والی جماعت بے وقوفوں کی ہے واﷲ !قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر اﷲ کے پیار کا مزہ مل جائے تو سارے گناہوں کو بھول جاؤ گے۔ جو مولائے کائنات دل کو پیدا کرسکتا ہے وہ دل کو مزیدار اور پُربہار بھی کر سکتا ہے، دوسرے ہمارے دل کو کیا بہار دے سکتے ہیں؟ جو خود مخلوق ہیں ان کی بہار خود ان کے اختیار میں نہیں ہے، ابھی جس لیلیٰ کو دیکھ کر مزے لوٹ رہے ہو اگر اسی لیلیٰ کو کینسر ہوجائے، پیشاب بند ہوجائے اور ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہو کر ہائے مرے! ہائے مرے! کرے تب دیکھو کہ مجنوں لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے۔ بیمار ہونے والے، سقیم ہونے والے عیب داروں اور ہگنے موتنے والوں اور ہوا کھولنے والوں پر مرنا مومن کا کام نہیں، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ہر سانس اﷲ پر مرے، غیراﷲ پر مرنے والی جماعت بے وقوفوں کی ہے، اس لیے میرا ایک شعر سن لو ؎ جب ہوا کھولی کسی معشوق نے میر بولے واہ میرے پاد شاہ دیکھو یہاں پاد کے معنیٰ عجیب وغریب ہیں، جو لوگ فارسی پڑھے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ سلاطین کو فارسی میں پادشاہ کہا جاتا ہے لیکن میر صاحب نے یہاں پادنے کے بعد ’’واہ میرے پادشاہ‘‘استعمال کیا۔