آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
اور ایک بات تو سنائی نہیں۔ ایک شخص نے حضرت مفتی صاحب سے کہا کہ شیطان ہر جگہ پہنچ کر وسوسہ ڈالتا ہے تو ہمارے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر ناظر کیوں نہیں ہوسکتے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو چھچھوندر ایک انچ کے قطر میں گھس جاتی ہے اور تمہارے ابا اس میں نہیں گھس سکتے تو کیا چھچھوندر تمہارےباپ سے افضل ہوجائے گی؟ شیطان کمبخت کے ہر جگہ پہنچنے سے وہ افضل تھوڑی ہوجاتا ہے۔ عجیب وغریبذہانت کی بات ہے۔ ایک جلسے میں حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃاﷲ علیہ کا بدعتیوں سے مناظرہ ہورہا تھا، ایک بدعتی نے کہا کہ تم میں او رسور میں کیا فرق ہے؟ وہ اسٹیج سے اُترے اور اپنے ہاتھ سے بدعتیوں اور دیوبندیوں کے اسٹیج کا فاصلہ ناپا پھر جاکر واپس کھڑے ہوئے اور کہا کہ مجھ میں اور سور میں پندرہ ہاتھ کا فرق ہے۔ یہ باتیں ممکن ہے کتابوں میں آجائیں مگر ہم نے براہِ راست شیخ سے یہ بات سنی ہے۔ حضرت کی زبانِ مبارک سے میرے کانوں نے سنا ہے اور روایتِ مرفوع کا درجہ اہم ہوتا ہے، کتاب میں وہ بات نہیں ہوتی۔ حضرت مفتی صاحب کو بخاری شریف کے ورق کے ورق زبانی یاد تھے۔ تقریر میں ایک جوش وخروش تھا، تیز رفتاری سے تقریر کرتے تھے مگر علوم بڑے تھے، حضرت مفتی صاحب میرے شیخ کے پاس جامع العلوم محلہ پٹکاپور سے تشریف لاتے تھے۔حضرت والا کے لیے حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہی کے ارشاداتِ مبارکہ جب میں سولہ سال کے بعد ہردوئی گیا تو جو سولہ سال کے لڑکے تھے وہ بتیس سال کے ہوگئے اور جن سے اَمرد ہونے کی وجہ سے میں اپنی نظر بچاتا تھا ان لوگوں نے میرے کان میں کہا کہ میری بیٹیاں جوان ہیں ان کے لیے دعا کیجیے کہ ان کو اچھا رشتہ مل جائے۔ تو اس وقت میں نے ایک شعر کہا کہ ؎ سولہ برس کے بعد جو آیا میں ہند میں کچھ حسن کے آثارِ قدیمہ نظر آئے میرے وہاں پہنچنے کی اطلاع جب حضرت مفتی صاحب کو ہوئی تو حالاں کہ حضرت مفتی صاحب کی آنکھوں کا کلکتے میں آپریشن ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے سفر سے منع کیا تھا مگر حضرت پھر بھی تشریف لے آئے اور میرے لیے فرمایا کہ یہ میرا خاص دوست ہے۔ یہ بھی بزرگوں کا کرم ہے کہ غلاموں اور خادموں کو دوست فرمایا کہ سولہ سال کے بعد آیا ہے چاہے کچھ بھی ہو میں ضرور ملنے جاؤں گا، تو کلکتے سے حضرت تشریف لائے حالاں