آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
نے جان کی بازینہیں لگائی یہ خوش نصیب نہیں ہیں،یہ بندے کی بد نصیبی ہے کہ وہ اﷲ پر مرنے سے کتراتا ہے کہ سب کی سب بُری خواہش کو کیسے ختم کروں، تھوڑی سی حرام لذت بھی کشید کرتے رہو، یہ نصیبے والے نہیں ہیں، ان کو نصیبِ دوستاں اورنصیبِ اولیاء حاصل نہیں ہے۔ جو جان کی بازی لگا کر اپنے قلب کے پورے دائرے کو نفس کیحیلولت سے محفوظ کرلیں پھر ان کا قلب من وعن، مِنَ الْبِدَایَۃِ اِلَی النِّھَایَۃْ چاند کی طرح روشن ہوجاتا ہے، نفس کی حیلولت کو ختم کرنے میں جان کی بازی لگادیتے ہیں کہ جان دے دیں گے مگر اﷲ تعالیٰ کو ناراض کرکے حرام لذت کشید نہیں کریں گے، یہ ہے نصیبِ دوستاں۔ اگرآپ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲ والوں کا نصیبہمل جائے تو ہمت سے کام لو جو اﷲ نے آپ کو دی ہے، ہمت چور مت بنو، مالک پر مرنا اپنے جینے کی ضمانت کا انتظام کرنا ہے، اﷲ پر مرنا اپنے جینےکا سامان کرناہے۔ جو حیات خالق پر فد اہوتی ہے تو وہ ایسی حیات یافتہ ہوتی ہے جس کی صحبت سے دوسروں کو حیات ملتی ہے۔اللہ کے راستے کا غم جانِ حیات ہے کائنات کے حمقاء سمجھتے ہیں کہ صوفیوں کو کیا ملے گا؟ ٹیڈوں کو بھی نہ دیکھو اور ٹیڈیوں کوبھی نہ دیکھو،ہرحرام لذت سے بچو تو پھر دنیا میں کیسے رہیں گے؟ تصوف کو بعض بےو قوف غارت گرِ حیات سمجھتے ہیں۔ اس پر میرا شعر ہے ؎ غارت گرِ حیات سمجھتی تھی کائنات میری نظر میں غم ترا جانِ حیات ہے بے و قوف دنیا والے سمجھتے تھے کہ مولویوں کو، صوفیوں کو، اﷲ کے عاشقوں کو کیا ملے گا؟ یہ کالی کو دیکھیں نہ گوری کو دیکھیں تو کیا دیکھیں پھر؟ ارے ظالمو! یہ اپنے مولیٰ کو دیکھیں گے جو سارے عالم کی لیلاؤں کو نمک دیتا ہے، یہ ا س مولیٰ کی تلاش میں ہیں۔ان کے قلب میں تقویٰ کی برکت سے، نظر بچانے کا غم اُٹھانے کی برکت سے، شکستِ دل، شکستِ آرزو اور خونِ تمنا کی وجہ سے جب وہ مولیٰ آئے گا تو تمہارے جیسے کتنے ان کی جوتیاں اٹھائیں گے، پیر دبائیں گے اور ان کا چہرہ ترجمانِ مولیٰ ہوگا ؎ غارت گرِ حیات سمجھتی تھی کائنات کائنات سمجھتی ہے کہ یہ تقویٰ وغیرہ غارت گرِ حیات ہے، مولیٰ کا عشق غارت گرِ حیات ہے، ان کو تو کوئی مزہ ہی