آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
لیلاؤں کو نمک دیتا ہے، یہ اس مولیٰ کی تلاش میں ہیں، جب شکستِ دل، شکستِ آرزو، خونِ تمنا اور تقویٰ کی برکت سے ان کے قلب میں مولیٰ آئے گا تو تمہارے جیسے کتنے ہی ان کی جوتیاں اُٹھا ئیں گے، پیر دبائیں گے اور ان کاچہرہترجمانِ مولیٰ ہوگا۔ کائنات سمجھتی ہے کہ ان کی زندگی، ان کا تقویٰ یہ سب غارت گرِحیات ہے، مولیٰ کا عشق غارت گرِ حیات ہے، ان کو کوئی مزہ ہی حاصل نہیں ، یہ نہیں سمجھتے کہ ؎ وہ شاہِ دو جہاں جس دل میں آئے مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے جواپنے قلب سے تمام غیر اﷲ کو نکال دے تو کیا اس کا چہرہ ترجمانِ مولیٰ نہ ہوگا؟ ؎ نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوبؔ خدا کا گھر پئے عشقِ بتاں نہیں ہوتاغمِ تقویٰ پر ارحم الراحمین کا پیار جو اتنا غم اُٹھائے گا تو کیا اﷲ ارحم الراحمین نہیں ہیں؟ وہ اس کے دل کا پیار نہیں لیں گے؟ جو بچہ اپنے ماں باپ کو خوش کرنے کے لیے غم اٹھاتا ہے ماں باپ اس کا پیار لیتے ہیں یانہیں؟ اور نافرمان بچے کو جوتے مارتے ہیں، تو جو نافرمانی سے حرام لذت کشید کرتا ہے اس کی کھوپڑی پر جوتے پڑتے نظر نہیں آتے مگر اس کے قلب پر اﷲ کے بُعد اورلعنت کے جوتے پڑتے ہیں، وہ تڑپتا رہتا ہے، پاگل کی طرح رہتا ہے، عاشقِ مجاز کو ایک پل کو چین نہیں ملتا۔ اسی لیے حکیم الامت فرماتے تھے کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے اورحاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ دنیاوی محبتیں چند دن کی ہوتی ہیں جب شکل بگڑی تو سب بھاگ نکلے ؎ شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست جن کو پہلے غزل سنائے ہیں پھریہ نفسانی محبت نفرت و عداوت میں کنورٹ ہوجاتی ہے، دیکھا آپ نے میرا بنوٹ! یہ محبت جو آنکھوں سے اور چہرے کی بناوٹ سے ہے یہ چند دن کے بعد جب جغرافیہ بدل جائے گاتو نفرت وعداوت سے بدل جائے گی،روئے زمین پر آج تک ہم کو ایسا کوئی بھی نہیں ملا جس کو عشقِ مجازی میں ہمیشہ باوفائی ملی ہو، جب چہرہ بدل گیا تو سب وہاں سے بھاگ گئے ؎