آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
غارت گرِ حیات سمجھتی تھی کائنات میری نظر میں غم ترا جانِ حیات ہے ۱۷؍ جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۹۸ ء، بروز ہفتہ،مجلس بعدنمازِ فجر، مسجدِحمزہ،لینیشیااللہ کے دائمی فقیر ارشاد فرمایا کہ ماں باپ پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیتے کہ جاؤ اپنا کماؤ کھاؤ، جب تک بالغ نہیں ہوجاتے ماں باپ بچوں کی فکر رکھتے ہیں۔ جب کمانے کے قابل ہوجاتے ہیں تب ماں باپ بے فکر ہو جاتے ہیں، لیکن بالغ بچے تو ماں باپ سے مستغنی ہو سکتے ہیں، مثلاً ابا کی تنخواہ مان لیجیے دس ہزار ہے اور لڑکا زیادہ کمانے والا ہوگیا اور ایک لاکھ روپے کما رہاہے تو اب وہ باپ کی مدد کا محتاج نہیں رہا، باپ سے بے نیاز ہوگیا،لیکن ہم بالغ ہو کر بھی اللہ کی مہربانی کے محتاج ہیں،مرتے دم تک ہماری کوئی سانس اللہ سے بے نیازنہیں ہوسکتی، مرتے دم تک ہماری ہر سانس اللہ کی مہربانی، رحمت اور مدد کی محتاج ہے۔ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدْ پیدایش سے لے کر موت تک بلکہ مرنے کے بعد بھی ہم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ عالمِ برزخ میں بھی، عالمِ محشر میں بھی، میدانِ قیامت میں بھی بلکہ جنت میں بھی ہم اللہ کے محتاج رہیں گے کہ جنت اور جنت میں اللہ کا دیدار اللہ کی مہربانی سے ہی نصیب ہوگا۔ اب اس کی دلیل سن لو اور دلیل بھی کیسی پیاری کہ ابھی آپ مولویوں کو ان شاء اللہ وجد آجائے گا، کیوں کہ جب تک دلیل نہ ملے مولوی کو مزہ نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللہِ ۚ ؎ اے انسانو! تم سب کے سب اللہ کے فقیر ہو’’اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ‘‘ جملہ اسمیہ ہے اور جملہ اسمیہ دلالت کرتاہے دوام وثبوت پر اور جملہ فعلیہ دلالت کرتاہے حدوث پر۔ پس اگر جملہ فعلیہ ہوتا تو لازم آتا کہ کبھی تم ہمارے فقیر اور محتاج ہو اورکبھی نہیں، اس لیے جملہ اسمیہ سے بیان فرمایا تاکہ ثابت ہو جائے کہ تمہارا فقر و احتیاج دائمی ہے، تم ہمارے دائمی فقیر ہوکیوں کہ دنیاوی فقیر جو ہوتاہے وہ انسانوں سے بھیک مانگتاہے، انسانوں سے اس کا فقرو احتیاج دائمی نہیں،وہ خود انسانوں کا محتاج بنا ہے اس لیے اس کا پیالہ بھی عارضی ہے، بھیک مانگ کر ------------------------------