آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
نہیں چھپانے دیا۔ بار بار کہنے سے مزاج بنتا ہے۔ پھرمجھ سے یہ برداشت بھی نہیں ہوتا۔ مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ اﷲ کی نافرمانی کو برداشت نہ کرسکے۔ مگر حکیمانہ طور پر سمجھائیں، یہ نہیں کہ ڈنڈا لگانا شروع کردیا ۔حدیث پاک ہے: مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ؎ جو شخص منکر کو دیکھے وہ پہلے ہاتھ سے مٹائے اور اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے کہے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو دل میں ارادہ کرے کہ جب طاقت ہوگی تو مٹائیں گے۔ فَبِقَلْبِہٖ کا مطلب یہ ہے کہ اے اﷲ! ابھی میں کمزور ہوں، ضعیف ہوں، مٹانے کی طاقت نہیں ہے، جب مٹانے کی طاقت آجائے گی تب مٹادیں گے۔یہاںتغیّرِ منکر کا ارادہ مراد ہے، کیوں کہ قلب ارادہ کا محل اور مرکز ہوتا ہے، ارادہ قلب ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗجو اﷲ کا ارادہ کرے وہی اصلی مرید ہے۔ جولوگ کہتے ہیں کہ بھئی پیری مریدی کہاں ہے؟ اس کو یہ آیت سنا دو۔ یُرِیْدُوْنَجمع ہے، قیامت تک حالاً اور استقبالاً بے شمار مرید اس میں داخل ہیں اور یُرِیْدُوْنَکا مطلب یہ ہے کہ جو اﷲ کی ذات کا ارادہ کرتا ہے وہی اﷲ کو پاتا ہے اور ساتھ ساتھ صحبتِ شیخ بھی ہو اور ذکر اﷲ کا دوام بھی ہو۔صحبتِ شیخ کی ضرورت کا ثبوت اور صحبتِ شیخ اس آیت سے ثابت ہے: وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ؎ اے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)! آپ صحابہ کے درمیان بیٹھیے، تاکہ انہیں صحبتِ شیخ کامل نصیب ہو اور آپ اس کے لیے تکلیف اٹھائیے۔ اس لیے اﷲ والوں کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، جگہ جگہ جانا پڑتا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے رسول! میں آپ کو جن کے پاس بھیج رہا ہوں یہ کو ن لوگ ہیں؟یہ غیر نہیں ہیں، ------------------------------