آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
کرامتِ صحبتِ اہل اللہ اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں کو سونے کا ترازو بنا دے، ایک اعشاریہ حرام لذت آجائے تو دل تڑپ جائے۔ آپ بتاؤ مچھلی کو دریا سے نکال کر تپتی ہوئی ریت پر ایک سیکنڈ کے لیے رکھ دو تو تڑپتی ہے یانہیں؟ تو کیا وجہ ہے کہ ایک اعشاریہ حرام لذت سے ہمارا دل نہ تڑپے، اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم سانپ ہیں مچھلی نہیں ہیں۔ میرے شیخ شاہ عبدا لغنی رحمۃ اﷲ علیہ یہ شعر پڑھتے تھے کہ ؎ دائم اندر آب کارِ ماہی است مار را با او کجا ہمراہی است آہ! ہر وقت پانی میں رہنا مچھلیوں کا کام ہے، ہر وقت اﷲ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ رکھنا یہ اﷲ والوں کا کام ہے، سانپوں کو یہ مقام کہاں حاصل ہے۔ سانپ میں زہر بھرا ہوا ہے۔ جس کے نفس میں حرام لذت کی عادت پڑی ہوئی ہو اس کو پاک ہونے کے لیے ایک زمانہ چاہیے، وہ دوسروں سے زیادہ جان کی بازی لگائے، زیادہ اﷲ والوں کے ساتھ رہے، سانپ تو مچھلی کے ساتھ ہزار سال بھی رہے تو سانپ ہی رہے گا لیکن اگر گناہ گاراﷲ والوں کے ساتھ رہیں تو ان کی ماہیت بدل جاتی ہے، اﷲ ان سانپوں کو یعنی ان گناہ گاروں کو مچھلی بنادیتا ہے،صاحبِ نسبت کردیتا ہے، ایسی قوی تجلی دیتا ہے کہ جن کے صدقے میں پھر ان سے ہزاروں اہلِ نظر پیدا ہوتے ہیں، یہ ایسے دیوانے بنتے ہیں کہ دیوانہ سازی بھی جانتے ہیں اور کسی لباس میں ہوں کسی حال میں ہوں چاہے بریانی کا لقمہ ہو چاہے چٹنی روٹی ہو چاہے کروڑوں روپے کا لباس وسلطنت ومرسڈیذ ہو، ا ن کے نزدیک کوئی حجابات نہیں رہتے ؎ اُڑا دیتا ہوں اب بھی تار تارِ ہست و بود اصغرؔ لباسِ زہد و تقویٰ میں بھی عریانی نہیں جاتی تو دوستو! مزہ لوٹ لو، واﷲ کہتا ہوں کہ ایک دن جب موت آئے گی تو فیلڈ ختم ہوجائے گی، اﷲ پر مرنے کے لیے زندگی چاہیے اورجب موت آگئی تو اب اﷲ پر کیا فدا کرو گے؟ اﷲ مردہ نہیں خریدتا، زندوں کو حکم دیتا ہے کہ مجھ پر فدا ہوجاؤ تو زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر کر لو، ایک ایک سانس کی قدر کرلو، ایک ہی سانس میں آپ اولیائے صدیقین کی خط انتہا تک پہنچ سکتے ہیں، صرف اس ارادے سے کہ آج سے اپنے مولیٰ کو