آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
صر ف ا للہ تعالیٰ ہی محبت کے قابل کیوں ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ محبوب ایسا ہونا چاہیے جس سے کبھی فصل اور فراق نہ ہو، لہٰذا اگر کسی مہ رُو کو اپنا محبوب بنایا اورسمجھا کہ ہر وقت اس کے ساتھ رہیں گے تو یہ ناممکن ہے، کیوں کہ جب وہ مہ رُو جاجرو (گجراتی میں بیت الخلاء کو کہتے ہیں ) میں جائے گا، تو کیا اس ماہ رو کے ساتھ جاجرو میں بھی جاؤگے اور اگر جاؤگے تو وہاں کیا پاؤگے؟ اور جب تمہیں پیٹ کی خاطراپنے کاروبار کے لیے دفتر اور بازار جانا پڑے گا تو فراق ہوگا یا نہیں ؟ اور اگر وہ مرگیا تو دائمی فراق ہوجائے گا، لہٰذا دنیا وی محبوبوں سے دوامِ وصل محال ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ایسی ہے جہاں ہر وقت دوامِ وصال، دوامِ قرب، دوامِ معیت ہے،کیوں کہ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ؎ جملہ اسمیہ ہے یعنی جہاں کہیں بھی تم ہو اللہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے ، ہم ہر وقت اللہ کے قرب سے مشرف رہ سکتے ہیں، اس لیے اللہ کے عشق میں بے چینی نہیں ہوتی، کیوں کہ ہر وقت وہ محبوب ِحقیقی ہمارے پاس ہے۔ برعکس دنیاوی محبوبوں کا عشق ہے کہ عاشق صاحب کہیں پڑے ہوئے رو رہے ہیں اورمعشوق صاحب کہیں پڑے ہوئے سو رہے ہیں، اس کو خبر بھی نہیں کہ کوئی اس کی یاد میں رو رہا ہے، اور ایک ہمارا اللہ ہے کہ اگر رات کی تنہائی میں ایک قطرہ آنسو اس کی محبت میں گر گیا، تو اللہ تعالیٰ اس آنسو سے باخبر ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں اور شہیدوں کے خون کے برابر اس کو وزن کرتے ہیں ۔ دنیا کے معشوقوں میں جدائی کا غم ہے، اس لیے ان کے عاشقین پاگل ہوگئے اور اللہ کا عاشق کبھی پاگل نہیں ہوتا کیوں کہ اس کو ہر وقت قرب حاصل ہے ، ہر وقت وہ محبوبِ حقیقی ہمارے پاس ہے۔ کیا دنیا میں کہیں کوئی ایسا محبوب ملے گا جو ہر وقت ہمارے پاس ہو، جو ہمیں سنبھال بھی سکے اور ہماری دیکھ بھال بھی کرسکے اور ہماری مصیبت میں ہمارے کام آسکے، بیماری کو شفا دے سکے؟ اس لیے عقلاً بھی محبت کے قابل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور یہ دنیاوی محبوب اس قابل نہیں کہ ان سے محبت کی جائے کیوں کہ مذکورہ بالا شرائطِ محبوبیت سے یہ محروم ہیں۔ہمارے میرؔصاحب کا شعر ہے ؎ ایسا محبوب کوئی دِکھلائے ہو جو ہردم دلِ حزیں کا حبیب جو ہو موجود دل کی دھڑکن میں رگِ جاں سےبھی ہوزیادہ قریب ------------------------------