آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سنّتِ غارِ حرا اس مجلس کے بعد حضرتِ والا صبح کی سیر کے لیے رسٹن برگ کے ایک جنگل میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ جنگل کے سناٹوں میں اللہ کو یاد کرنا سنت غارِ حرا ہے۔میرا شعرہے ؎ خلوتِ غارِ حرا سے ہے طلوعِ خورشید کیا سمجھتے ہو تم اے دوستو ویرانوں کو غارِ حرا کی خلوتوں ہی سے آفتابِ نبوت طلوع ہوا ۔سالکین کے لیے دو اہم سبق ارشاد فرمایا کہ یہ دو جملے میرے دل سے نکلے اور زبان نے اس کا ترجمہ کیا کہ گناہ سے بچنے میں جتنا عظیم اور شدید سے شدید غم آئے یہاں تک کہ ہارٹ فیل ہونے کا اندیشہ بھی ہوجائے تو ہارٹ فیل ہونا اور اللہ پر مرجانا قبول کرلو لیکن اللہ کو ناراض نہ کرنے کی عزت کو سر آنکھوں پر رکھ لو، اور دوسرا جملہ یہ ہے کہ اللہ کو خوش کرنا جنت سے عظیم نعمت سمجھو۔ دلیل کیا ہے ؟ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَاے اللہ! میں تجھ سے تیری رضا کا سوال کرتا ہوں اور جنت کا۔ جب رضا مقدم ہے تومعلوم ہوا کہ جنت درجۂ ثانوی میں ہے۔ اگر اللہ کی رضا جنت سے زیادہ عظیم نعمت نہ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جنت پر مقدم نہ فرماتے، اورفرمایا وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ؎ اور اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں اور جہنم سے۔ دوزخ کی آگ درجۂ ثانوی میں ہے۔ دوزخ کی آگ سے بڑی آگ یہ ہے کہ آپ ہم سے ناراض ہوجائیں۔ اے اللہ! ایسا ایمانِ صدیقین مجھے اور میری اولاد کو اور میرے احبابِ حاضرین و غائبین کو اور ساری اُمت کو عطا فرمادے کہ آپ کی خوشی ہمیں جنت سے زیادہ عزیز ہوجائے اور آپ کی ناراضگی دوزخ سے اشد معلوم ہو۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ------------------------------