آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
آنکھوں کی جو ٹھنڈک اللہ اپنے ایک ولی کو دیتا ہے، دوسرے ولی کو اس ٹھنڈک اور اللہ کے اس پیار کی خبر نہیں ہوتی۔ ایک ولی کی لذتِ قرب کو دوسرا ولی نہیں جانتا۔ اور پھر عرض کردوں کہ یہ تفسیر نہیں لطائفِ قرآنیہ ہیں۔ اس لیے حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ مقولہ جو مشہور ہے کہ’’ولی را ولی می شناسد‘‘ یعنی ایک ولی دوسرے ولی کو پہچانتا ہے بالکل غلط ہے، بلکہ صحیح یہ ہے ’’ولی را نبی می شناسد‘‘ ولی کو نبی پہچانتا ہے، کیوں کہ وہ اتنے بلند مقام پر ہوتا ہے کہ وہ سب سمجھتا ہے کہ میرا کون اُمتی کس مقام پر ہے ۔ ایک ولی کودوسرے ولی کے قُرب کا علامات و قرائن سے تھوڑاسا اجمالی علم تو ہو سکتا ہے تفصیلی علم نہیں ہوتا، بس اتنا پتا لگ جاتا ہے کہ اس کو اللہ کا قُرب حاصل ہے اور اللہ کے ذکر سے اس کے قلب کو اطمینان ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے والوں کو وہ اطمینان متعدی ہورہا ہے، لیکن اس کو کیسی ٹھنڈک اور کیسا قرب اور کیسی لذت حاصل ہے، ایک ولی بھی دوسرے ولی کی ان کیفیات سے واقف نہیں ہوتا۔حصولِ ولایتِ خاصّہ کے دو بنیادی اُصول ارشاد فرمایا کہ میں عرض کرتا ہوں کہ حصولِ ولایتِ خاصّہ کے لیے دو کام کرلو: ۱) یہ کہ شیخ کی صحبت سے اپنے کو مستغنی مت سمجھو، کیوں کہ کیفیتِ احسانیہ اور حضورِ قلب شیخ کے قلب ہی سے منتقل ہوتا ہے ۔ کیفیتِ احسانیہ کی تشریح کیا ہے؟ علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ احسان یہ ہے کہ اَنْ یُّشَاھِدَ رَبَّہٗ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَ نَّہٗ یَرَی اللہَ تَعَالٰی شَانُہٗ؎ سالک کے قلب کو اپنے رب کا ایسا مشاہدہ نصیب ہوجائے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ کیفیتِ احسانیہ کُلّی مشکک ہے، اس کے مختلف درجات ہیں، ہر ولی اللہ کو الگ الگ درجے دیے جاتے ہیں، جیسا جس کا مجاہدہ ویسا اس کا مشاہدہ۔ جو اللہ کے راستے میں زیادہ غم اُٹھاتا ہے اللہ اس کے مشاہدہ کو زیادہ قوی کردیتا ہے۔ کیوں کہ صحابہ کو جو احسان حاصل ہوا تھا وہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس قلب مبارک سے جو معراجِ جسمانی سے مشرف ہوا تھا اور اُن آنکھوں سے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو اور جنت و دوزخ کو دیکھا تھا، تو صاحبِ معراج کےقلبِ نبوت سے صحابہ کو جو کیفیتِ احسانیہ منتقل ہوئی تھی تو ان کی کیفیتِ احسانیہ کو نہ اس اُمت کے افراد پاسکتے ہیں نہ ------------------------------