آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اے اﷲ!ہم سب کو صحت و عافیت، سلامتیٔ ایمان وسلامتیٔ اعضا کے ساتھ زندہ رکھیے اور سلامتیٔ ایمان اور سلامتیٔ اعضا کے ساتھ دنیا سے اُٹھائیے اور روح آسانی سےقبض فرمائیے اور تجلیاتِ خاصّہ کے مشاہدہ سے شاداں وفرحاں غزل خواں اپنے پاس بلائیے۔ وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ ۱۷؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق ۹؍اکتوبر ۱۹۹۸ ء، جمعۃ المبارک، بعد عشاء ساڑھے نو بجےغیر اللہ سے دل کو پاک کرنا سلوک و تصوف کی روح ہے ارشاد فرمایاکہ احسان منتقل ہوتا ہے اہل اﷲ کے سینوں سے، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو احسان ملاتھا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک سے، تو جس کو احسانی کیفیت کسی پیغمبر سے عطا ہو تو دوسرے اُمتی صحابہ کی کیفیتِ احسانی کو کیسے پاسکتے ہیں۔ تو سلوک کا حاصل بتا رہا ہوں، کیوں کہ یہ مجمع مریدین او رسالکین کا ہے کہ اگر دل سے غیر اﷲ کے نکالنے میں کوتاہی اورغفلت کی اور چوری چھپے کچھ کچھ حرام لذت کشید کرنے کی موش جیسی عادت ہے تو مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ گر خفاشے رفت در کور و کبود اگر چمگادڑ پیشاب و پاخانے کی نالیوں میں گھس کر پیشاب پیتا ہے اور پاخانہ کھاتا ہے تو ہم کو کوئی تعجب نہیں ہے ؎ بازِسلطاں دیدہ را بارے چہ بود لیکن جس باز نے بادشاہ کو دیکھا ہوا ہے اس ظالم کو کیا ہوگیا کہ بازِ شاہی ہوکر وہ موش بنا ہوا ہے۔ تو مرید کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اب وہ بازِ شاہی یعنی شاہبازی سیکھنا چاہتا ہے،اور شاہبازی اپنے شیخ سے آئے گی، شاہبازی کرگسوں سے نہیں آئے گی، لیکن شیخ بھی بازِ شاہی اور شاہ بازی کے مقام کوسمجھتا ہو۔ جلال الدین رومی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو ؎ بازِ سلطانم گشم نیکو پیم میں شیخ مرشد شمس الدین تبریزی کے فیض سے بازِ سلطان بن چکا ہوں، فارغ از مردارم اب میں مرنے والی لاشوں کے ڈسٹمپر کو نہیں دیکھتا کہ ان کی ناک کی اُٹھان کیسی ہے، گال کیسے ہیں، آنکھیں رسیلی ہیں نشیلی ہیں نوکیلی ہیں اور دوکیلی ہیں ؎