آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ان کے آنے کا لگا رہتا ہے دھیان بیٹھے بٹھلائے اُٹھا کرتے ہیں ہم ایک بلبل ہے ہماری رازداں ہر کسی سے کب کھلا کرتے ہیں ہم یہاں ایک بلبلہ خاندان بھی بیٹھا ہے، وہ یہ نہ سمجھیں کہ مجھ کوکہہ رہے ہیں، بعض وقت غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ لیکن جس کے قلب کو میرے قلب سے مناسبت ہو بس وہ میرا بلبل ہے۔اس پر دو لطیفے سنا تا ہوں۔دو لطیفے ایک بڑے جامعہ کے مہتمم اور شیخ الحدیث نے مکہ شریف میں مجھ سے فرمایا کہ میں پیشاب کرنے جارہا ہوں تو میں نے کہا بلبل، مولانا نہیں سمجھے اور چلے گئے، بیت الخلاء میں سوچا کہ اختر نے یہ بےموقع بلبل کیوں کہا؟ بیت الخلاء میں سمجھ میں آیا کہ بَالَ یَبُوْلُکا امر بُلْآتا ہے، بُلْ بُلْتاکید تھی کہ ہاں مُوت لے، مُوت لے۔ اس کا دیسی ترجمہ پوربی زبان میں ہے مُوت لے، تو جب مولانا بیت الخلاء سے آئے تو ہنستے ہوئے آئے کہ بھئی تم نےآج کمال کردیا، تم نے بُلْ بُلْکہہ کر مجھے تو چکر میں ڈال دیا، مجھے کیا معلوم کہ تم مجھے پیشاب کی ڈبل اجازتدے رہے ہو۔ اب دوسرا لطیفہ سنو! بیت العلوم میں ایک عالم آئے، میرے شیخ نے ان کو اپنے گھر بلایا تو انہوں نے کہا کہ بعض وقت آدمی سنتا کچھ ہے اور اس میں غلط فہمی ہوجاتی ہے، ایک چور، ہَسُّو نام کے آدمی کی دری چرا کر ایک مشاعرے میں چلا آگیا، اُس وقت شاعر یہ مصرع پڑھ رہا تھا ؏ ہر سو کہ دویدیم تو ا س ظالم کو یہ سنائی دیا کہ ہَسُّو کی دری دے، شاعر نے کیا پڑھا ہر سوکہ دویدیم یعنی ہم جدھر جاتے ہیں اﷲ نظر آتا ہے، کیا غضب کا شعر سنایا،لیکن چور جس کے بغل میں ہَسُّو کی دری تھی وہ ہر سو کوہَسُّو سمجھا اور دویدیم کو سمجھا کہ دری دے، اس نے سوچا کہ یہ تو بے عزت کررہا ہے، پتا نہیں اس کو کس نے بتا دیا کہ یہ ہَسُّو کی دری چرا کرلایا ہے، چور نے اس سستی کے زمانے میں پانچ روپیہ اس کو ہدیہ کردیا کہ اب یہ شعر نہ پڑھے، میرا راز چھپا لے، مجھ کو ذلیل نہ کرے، لیکن قوال نے سمجھا کہ اس کو بہت مزہ آیا ہے، مشاعرے کے