آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اور کسی کو کباب کھاتے ہوئے دیکھا کہ کیسے مزے سے کھا رہا ہے تو یہ عین الیقین ہے۔ پہلے صرف علم حاصل ہوا تھا کہ شامی کباب مزیدار ہوتا ہے، اب کسی کو کھاتے ہوئے آنکھ سے دیکھ لیا تو یقینِ علمی کے ساتھ یقینِ عینی بھی حاصل ہوگیا، اور جب خود کباب کھالیا، کسی نے منہ میں ڈال دیا تو حق الیقین حاصل ہوجائے گا۔ بس یہ تین درجے ہیں علم کے۔قرآن پاک پر ایمان لانا علم الیقین ہے، کسی اﷲ والے کو دیکھوتو عین الیقین مل جائے گا اورجب خود اﷲ کو پاجاؤ گے تو حق الیقین مل گیا۔ اس مضمون کو یعنی علم کے تین درجوں علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کو سمجھانےکے لیے استادوں کو پسینے آجاتے ہیں،لیکن بتاؤ آپ کو مزے سے سمجھ آگیا کہ نہیں؟ اور یہ مسئلہ ظالم کباب نے آپ کو سمجھایا ہے۔فلسفہ کے ایک مسئلہ کا حل دعوتِ طعام کی مثال سے اسی طرح فلسفہ کا ایک اور مسئلہ ہے جو بڑے بڑے استاد نہ خود سمجھتے ہیں نہ سمجھا پاتے ہیں اِلَّا ما شاء اﷲ، اور وہ مسئلہ ہے بشرطِ شے، بشرطِ لاشے، لا بشرطِ شے۔ بتائیے چکّرآگیایا نہیں؟ ایک دفعہ میرے دو بزرگ بیٹھے ہوئے تھے، مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم اور ڈھاکہ کے حافظ جی حضور جو حکیم الامت کے خلیفہ تھے، میں نے ان سے کہا کہ حضرت فلسفے کا ایک مسئلہ اختر اس طرح سمجھاتا ہے کہ اس سے طالب علم اور استاد بہت جلدی سمجھ جاتے ہیں۔ جیسے کسی نے آپ کی دعوت کی، آپ کہیں کہ صاحب اس شرط پر دعوت قبول ہے کہ آپ شامی کباب کھلائیں گے، آپ نے دعوت میں شامی کباب کی شرط لگا دی، اس کا نام ہے دعوت بشرطِ شے، اور اگر آپ کہیں کہ مجھے گائے یا بیل کا بڑا گوشت نقصان کرتاہے، لہٰذا بڑا گوشت نہ کھلانا تو اس کا نام ہے دعوت بشرط لا شے کیوں کہ بیل کا گوشت لا شے ہوگیا۔ پہلی شرط میں حصول تھا کہ کباب لاؤ، یہاں بشرط لا شے ہے کہ بیل کا گوشت نہ ہو، بکرا کھلانا۔ دومسئلے حل ہوگئے، بشرطِ شے کباب سے حل ہوا اور بشرطِ لاشے بڑے گوشت سے حل ہوا۔ اب اگر آپ نے کہا کہ صاحب کوئی قید نہیں، آپ کی مرضی پر ہے چاہے کباب کھلاؤ، چاہے بیل کا گوشت کھلاؤ، جو چاہو کھلاؤ، جوچاہو نہ کھلاؤ، اس کا نام ہے دعوت لا بشرط شے۔ جب میں نے اس کو بیان کیا تو سب علماء اور میرے مشایخ بھی ہنسے اور شاباشی دی۔ تو دیکھا آپ نے دعوت کی کرامت! کہ یہ فلسفے کے مسائل حل کردیتی ہے۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ دو نعمتوں کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے: (۱)دعوت کا کھانا اور