آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
وجہ سے ہمارے اکابر سے حسنِ ظن نہیں رکھتے تھے، لیکن حضرتِ والا کے بیانات سے ایسے متأثر ہوئے کہ مختلف شہروں میں جا جا کر شرکت کی اور کثیرتعداد میں لوگ حضرتِ والا کے دست مبارک پر سلسلہ میں داخل ہوئے۔ الحمدﷲ تعالیٰ ایک ہی سفر میں ملاوی کی فضا بدل گئی۔ ۱۸؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء، بروز اتوار، دس بجے صبح، جوہانسبرگ ایئرپورٹعاشقِ مجاز کی تلخی حیات (آج صبح دس بجے ملاوی روانگی کے لیے حضرتِ والا مع احباب جوہا نسبرگ ایئر پورٹ تشریف لائےتو جہاز کی روانگی میں دیر تھی ۔اس وقت حضرتِ والا نے مندرجہ ذیل ارشادات سے مستفید فرمایا۔ جامع) ارشاد فرمایا کہ اﷲ والے ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ لوگ ان کی جوتیاں اٹھانے کی تمنا کرتے ہیں، جبکہ عاشقِ مجاز جب پکڑے جاتے ہیں تو ان کی کھوپڑی پرجوتے پڑتے ہیں، یہ تو ظاہری رسوائی ہے اور ان عاشق مزاجوں کے قلب پر جو ہروقت اﷲ کی لعنت و عذاب اورتلخی ٔ حیات برستی ہے وہ مستزاد رہی،فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا؎ وہ ہر وقت پریشان رہتے ہیں، نہ دنیا میں چین ملتا ہے نہ آخرت میں۔ اس سے بڑے خسارے میں کوئی انسان نہیں جو اپنے مالک کو ناراض کرکے حرام لذت کی، بے حیائی کی اور بے وفائی کی کمینی عادتوں میں مبتلا ہے۔اللہ سے دوری اور حضوری جمع نہیں ہو سکتے اس لیے سارے عالم میں میرا یہی مضمون ہے کہ غیر اﷲ کو دل سے بالکل نکال دو اور پھر دوبارہ آنے بھی نہ دو۔ ایک تو ہے اِخراج کہ غیر اﷲ کو نکال دیا مگر آنکھوں کا گیٹ کھلا رکھا کہ پھر دوبارہ دوسرا حسین آجائے، اس گیٹ کو بند کرلو، غضِّ بصر رکھو، کسی حسین کا نمک مت دیکھو، ورنہ اس کے گراؤنڈ فلور کی گندی نالیوں سے نفرت ختم ہوجائے گی، فرسٹ فلوریعنی گال اور بال دیکھنے سے عقل معذب ہوجاتی ہے، حیات لعنتی ہوجاتی ہے، بدنظری ملعون حرکت ہے، بدنظری کی وجہ سے لعنت آئے گی، لعنت اﷲ سے دور کرے گی، سایۂ رحمت سے تمہیں الگ کرے گی جس کی وجہ سے خالقِ امّارہ بالسوء کا استثناء ختم ہوجائے گا۔ امّارہ بالسوء کا خالق اِلَّا مَا رَحِمَ ------------------------------