آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
پاجائیں گے، لیکن اس کے گردے کی پتھری نہیں نکل سکتی جب تک کسی ڈاکٹر سے علاج نہیں کرائے گا، یہ اسی مرض میں مبتلا رہے گا اور اسی میں مرے گا ۔ مجلس۱۴؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق۷؍ اکتوبر ۱۹۹۸ ء، بروز بدھ بوقت پونے چھ بجے صبح، بعد فجر، مسجد حمزہ ( لینیشیا ) اَللّٰھُمَّ إِ نِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ…الخ کی عجیب وغریب شرح ارشاد فرمایا کہ حدیثِ پاک کی دعا ہے:اَللّٰھُمَّ إِ نِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ ،وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ ،وَفُجَاءَ ۃِ نِقْمَتِکَ ،وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ؎ اس حدیثِ پاک میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اوّلاً زوالِ نعمت سے پناہ مانگی ہے کہ اے اللہ! میں پناہ چاہتا ہوں نعمت کے زائل ہوجانے سے۔ اور زوالِ نعمت کیا ہے؟ مثلاً :رات کو خیریت سے سوئے، صبح اُٹھے تو معلوم ہوا کہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔یامال دار تھا، اچانک تجارت میں گھاٹا آگیا اور فقیر اور مقروض ہوگیا۔یا کوئی بیماری آگئی اور صحت کی نعمت زائل ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاکرم ہے کہ آپ نے ایسی دعا سکھادی تاکہ میری اُمت کے لوگوں کی نعمتیں زائل ہی نہ ہوں۔ یہ تو ظاہری نعمتیں ہیں۔اسی طرح باطنی نعمتوں کے زوال سے پناہ بھی اس میں شامل ہے ،جیسےنعمت ِتقویٰ ہے کہ ابھی تک محفوظ تھے، لیکن ہوائی جہاز میں بیٹھے اور ایئرہوسٹسوں کو دیکھنا شروع کردیا اور آنکھوں کی نعمت ِتقویٰ زائل ہوگئی،یا کانوں سے گانا سننے لگے اور کانوں کا تقویٰ زائل ہوگیا،یا غصہ چڑھ گیا تو ماں باپ سے لڑنے لگے یا بے کس سمجھ کر بیوی کو پیٹنے لگے۔ تو زوالِ نعمت کے معنیٰ یہ بھی ہیں کہ اخلاقی طور پر ہمارا اعتدال اور استقامت ختم ہوجائے اور کوئی رذیلہ غالب ہوجائے ،لہٰذا اخلاقی زوال ہو یا ایمانی زوال ہو یا کیفیتِ احسانیہ کا زوال ہو سب اس میں شامل ہے۔عیب کی نسبت اللہ کی طرف کرنا سخت بے ادبی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زوالِ نعمت فرمایا، ازالۂ نعمت نہیں فرمایا،یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ اِزَالَۃِ نِعْمَتِکَکیوں کہ اِزالہ یعنی نعمت سے محرومی کی نسبت اللہ کی طرف ------------------------------