آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
دیدۂ مجنوں اگر بودے ترا ہر دو عالم بے خطر بودے ترا اگر مجنوں کی آنکھ تجھ کو نصیب ہوتی تو تیری نظر میں دونوں جہاں بے قدر ہوجاتے ؎ دیدِ لیلیٰ کے لیے دیدۂ مجنوں ہے ضرور اس کے بعد مولانا رومی فرماتے ہیں اے ظالمو! مجنوں کی نظر میں تو یہ بات تھی اور تم اللہ کے کیسے مجنوں ہو ؟ عشقِ مولیٰ کے کم از لیلیٰ بود لیلیٰ کے دیکھنے کے لیے مجنوں کی آنکھ چاہیے اور مولیٰ کو دیکھنے کے لیے مولیٰ کے مجنوں کی نظر چاہیے، مولیٰ کو سمجھنے کے لیے اللہ والوں کی نظر چاہیے، پیغمبروں کی نظر چاہیے، اولیاء اللہ کی نظر چاہیے۔ لیلیٰ کے مجنوں اور ہیں اور مولیٰ کے مجنوں اور ہیں۔ لیلیٰ کا مجنوں بے چارہ پاگل ہوگیا، نہ لیلیٰ کو پایا نہ مولیٰ کو پایا، لیکن مولیٰ کے جومجنوں ہیں وہ پاگل نہیں ہوتے، وہ ایسےعقل مند ہوتے ہیں کہ ان کی برکت سے لاکھوں اور مجنوں عقل مند بن جاتے ہیں۔ جو بے وقوف ہوتے ہیں وہ بھی اللہ والوں کے پاس آکر عقل مند ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک بات بتادوں، یہ مجنوں اور لیلیٰ دونوں مسلمان تھے ۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں میں نے پڑھا کہ لیلیٰ جو تھی مجنوں کے چچا کی بیٹی تھی۔ دونوں مسلمان تھے، مجنوں کے ابّا بھی مسلمان اور لیلیٰ کے ابا بھی مسلمان، مجنوں بھی مسلمان اور لیلیٰ بھی مسلمان اور مجنوں کے ابّا نے اپنے سگے بھائی لیلیٰ کے ابّا سے کہا یعنی مجنوں کے چچا سے کہ بھائی جان! اپنی بیٹی کو میرے بیٹے سے کیوں نہیں بیاہ دیتے ؟بیاہ کے معنیٰ اور بیاہ کے معنیٰ کیا ہیں؟ بیاہ اصل میں تھا بے آہ، کہ جو آہ آہ کررہا تھا کہ ہائے بیوی کب ملے گی، شادی کب ہوگی؟ جب بیوی پاگیا تو آہ ختم ہوگئی اور وہ بے آہ ہوگیا۔ بتاؤ ملاوی والو! یہ معنیٰ کبھی سنے تھے؟ ذرا دعا دینا اس فقیر کو۔ یہ معنیٰ شاید ہی کسی نے بیان کیے ہوں۔ تو مجنوں کے چچا نے کہا کہ اے میرے بھائی کیسے شادی کروں؟یہ تو پاگل ہے، کہیں پاگلوں کو کوئی اپنی بیٹی دیتا ہے! روٹی کپڑا مکان یہ کہاں سے دے گا؟یہ تو ہر وقت رویا کرتا ہے۔ آنسوؤں اور آہ و فغاں کے