آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
جنت اور خالقِ جنت مولانا منصور صاحب نے شعر پڑھا ؎ جنت اگر اسے ترے صدقے میں ہو عطا ناصرؔ نہ جائے گا مرے آقا ترے بغیر حضرت مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ جو حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے خلفاء میں سے ہیں اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی ہیں انہوں نے حضرت حکیم الامت سے عرض کیا کہ اے میرے شیخ تھانوی! اگر جنت میںاﷲ تعالیٰ ہم کو اختیار دیں کہ تم جنت میں جاؤ گے یا اپنے شیخ کی مجلس میں جو جنت سے الگ کہیں ہو رہی ہے، تو میں آپ کی مجلس میں جاؤں گا۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ مرید کو ایسا ہی عقیدہ رکھنا چاہیے، یہ جنت میں اور اشرف علی میں تقابل نہیں ہے بلکہ جنت میں اور اﷲ میں تقابل ہے، کیوں کہ تم نے اﷲ کے لیے ہمیں شیخ بنایا ہے تو گویا اﷲ تمہیں اپنی طرف بلائے تو تم جنت میں جاؤ گے یا اﷲ کی طرف جاؤ گے؟ تو مولانا کے شعر کی شرح یہ ہے کہ اگر جنت میں ہمیں اﷲ نہ ملے تو جنت میں جاؤگے؟ تو شیخ کی محبت اﷲ ہی کے لیے ہے یعنی اگر اﷲ ہمیں جنت دے اور کہے کہ جنت لے لو مگر ہم تمہیں جنت میں نہیں ملیں گے، تو جہاں اﷲ ملے گا ہم وہاں جائیں گے۔ تو شرح ہوگئی کہ نہیں؟ ورنہ اِشکال ہوتا کہ شیخ کی محبت جنت سے بھی زیادہ ہے! یہاں شیخ کی محبت مراد نہیں ہے، بلکہ اﷲ کی محبت اتنی ہے کہ جنت سے زیادہ ہمیں اﷲ پیارا ہے، یہ شرح بہت ضروری تھی۔ اگر آج ہمیں بزرگوں کے ارشادات یا د نہ ہوتے تو اس کی شرح بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کے شعر کا مقصود یہ ہے کہ اگر اﷲ کہے کہ تو جنت میں جائے گا یا میرے پاس آئے گا؟ تو کون ظالم ہے جو اﷲ کوچھوڑ کر کہے کہ نہیں ہم تو جنت میں جائیں گے۔ جنت سے بڑھ کر اﷲ پیارا ہے، وہ بغیر جنت کے ہم کو جنت سے زیادہ مزہ دینے پر قادر ہے، کیوں کہ جنت مخلوق ہے، اﷲ تعالیٰ خالق ہے، خالق افضل ہوتا ہے مخلوق سے، تو ہم افضل کو چھوڑ کر فاضل کی طرف کیسے جائیں؟ یہ شرح یا د رکھنا ورنہ کوئی غیر عارف مولوی فتویٰ لگا دے گا یعنی جن کو ارشادات و اقوالِ بزرگاں کی تحقیق نہیں ہے وہ سیاق و سباق اور مالہٗ و ما علیہ کی تحقیق کیے بغیر فتویٰ لگا دیں گے اور جو اﷲ والا ہوگا وہ دوسرا فتویٰ لگائے گا۔ دیکھیے! حکیم الامت مفتی بھی تھے یا نہیں؟ لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ محمد حسن! میرے ساتھ اتنی عقیدت اور میرے متعلق تمہارا ایسا عقیدہ مناسب نہیں ہے، بلکہ تعریف فرمائی کہ مرید کو اپنے شیخ سے