آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
گریہ و زاری حصولِ حیاتِ ایمانیہ کی علامت ہے ارشاد فرمایا کہ جب تک بچہ پیدا نہیں ہوتا تو ماں کے پستانوں میں خون بھرا ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی بچہ پیدا ہوا اور رویا تو اس کے رونے کی آواز سے ماں کے پستانوں کا سارا خون دودھ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب بندہ اللہ سے روتا ہے تو اللہ کا غضب بھی رحمت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب ماں کی رحمت سے اس کا خون دودھ بن سکتا ہے تو بندے کی توبہ و استغفار اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کا غضب دریائے رحمت میں کیوں تبدیل نہ ہوگا؟ لہٰذا وہی بندہ جو مغضوب تھا اب مرحوم و مغفور ہوگیا، اس پر رحمت کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اور بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی اس کو رونا سکھاتے ہیں تاکہ ماں کی چھاتیوں کا خون دودھ میں تبدیل ہو کر اس کی غذا تیار ہوجائے۔ اسی طرح اللہ جس کو اپنی رحمت کا پیار دینا چاہتا ہے اس کو رونے کی توفیق دیتا ہے۔ اگر پیدا ہونے کے بعد بچہ نہ روئے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ بچہ مُردہ پیدا ہوا ہے ۔ تو بچے کا رونا اس کی حیاتِ جسمانی کی علامت ہے، اسی طرح جب بندہ روتا ہے تو یہ اللہ کی طرف سے اس کو حیاتِ ایمانیہ عطا ہونے کی علامت ہے۔انتقالِ نسبت محتاجِ زبان نہیں ارشاد فرمایا کہ میرے مخاطب جو اُردو نہیں جانتے اللہ میری بات ان کے دل میں ڈال دے۔ دیکھیے ایک لڑکا سوپ پیتا ہے، بادام کھاتا ہے، مرغِ مسلّم اُڑاتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ اس چیز کا نام مرغا ہے، لیکن جب بالغ ہوگا تو سمجھ جائے گا کہ یہ ان ہی مرغوں کی برکت ہے۔ تو یہ گجراتی جو آج میری اُردو نہیں سمجھ رہے ہیں جب اللہ کی محبت کا مزہ پائیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ اختر کیا کہہ رہا تھا۔ نسبت اپنے انتقال میں زبان کی محتاج نہیں ہے، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی عربی پیدا ہوئے لیکن سارے عالم میں اسلام پھیل گیا۔ تو نسبت الی اللہ زبان کی محتاج نہیں ہے ۔ دردِ دل سے جو بات نکلتی ہے وہ دلوں میں داخل ہوجاتی ہے، زبان سمجھے یا نہ سمجھے۔ (احقر مرتب عرض کرتا ہے کہ مدینہ منورہ میں مقیم عالم بزرگ اور ان کے صاحبزادے جو عالم بھی ہیں اور اُردو نہیں سمجھتے وہ بھی اس مجلس میں موجود تھے۔ حضرت کا یہ ارشاد سن کر صاحبزادے نے فرمایا کہ کَمَا فَہِمْتُ اَنَا یعنی جیسے میں سمجھ گیا۔)