آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
شیخ پینے کا ارادہ تو کریں حوضِ کوثر سے منگا لی جائے گی تواﷲ کو قلب کا پورا جہاں دینا پڑتاہے، یعنی ہر خواہش جو مرضیِ مالک کے خلاف ہو۔ وہ خواہشات جن سے اﷲ راضی نہ ہو تو اپنے دل کی ایسی دنیاوی خواہشات کو اﷲ پر فدا کر دو، اپنی خوشیوں کو مالک کی خوشیوں پر قربان کردو تو آپ نے گویا پورا جہاں اللہ کو دے دیا۔ اب اگر میں شرح نہ کرتا تو لوگ کہتے کہ ان کے پاس گاؤں کیا، ایک محلہ کیا، مکان بھی اپنا نہیں ہے، کرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو پورا جہاں اور دونوں جہاں کہاں سے دے سکتے ہیں؟ تو جہاں سے مراد جہاں خواہشاتِ دل ہے، دنیائے خواہشات کو اﷲ پر فدا کرنا ہے۔ اور سنو! میں نے اﷲ کا نام جانِ جہاں کیوں رکھا؟ کیوں کہ ان کا نام لینے کی برکت سے یہ آسمان وزمین قائم ہیں۔ جب ایک بھی اﷲ کا نام لینے والا نہ رہے گا تو قیامت آجائے گی۔ تو جن کے اسم کی یہ شان ہے وہ مسمّٰی کتنا پیارا ہوگا؟ اس شعر کے پہلے مصرع ’’ جہاں دے کر ملا ہے دل میں وہ جانِ جہاں مجھ کو‘‘ کی شرح ہوگئی۔ اب دوسرے مصرع کی شرح کرتا ہوں۔اللہ خونِ تمنا سے ملتا ہے بہت خونِ تمنا سے ملا سلطانِ جاں مجھ کو میری اُردو کو دیکھو! الحمدﷲ اللہ تعالیٰ مجھے الفاظ بھی عطا فرماتے ہیں۔ اس مصرع کی قیمت سلطنت بھی نہیں دے سکتی، یعنی میری جان کا خالق اور مالک، میرا اﷲ مجھے بڑے خونِ تمنا سے ملا ہے، اﷲ کا سودا ایسا سستا نہیں ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلَااِنَّ سِلْعَۃَ اللہِ غَالِیَۃٌ؎ اے ایمان والو! اﷲ کا سودا مہنگا ہے، سستا نہیں ہے، اﷲ خونِ تمنا سے ملتا ہے۔ خونِ تمنا سے مراد ہے کہ جو خوشی ہمیں حاصل ہورہی ہو، مگر اس سے اللہ ناخوش ہو تو جو اس حرام خوشی سے بچے گا اس کے دل میں ایک غم پیدا ہوگا، یہ ہے خونِ تمنا۔ اور یہ غم اتنا روشن ہوتا ہے کہ سورج بھی اس سے شرماتا ہے کیوں کہ یہ اﷲ کے راستے کا غم ہے، جس کو یہ غم حاصل ہو جائےوہ اشکبار رہتا ہے اور سورج و چاند اس غم کی روشنی سے شرمسار رہتے ہیں۔ ------------------------------