آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
میرصاحب کو بھی نہیں بتائی تھی، آج میں نے یہ راز ظاہر کردیا کہ یا اﷲ! میرے شیخ کے قلب میں مجھے سب سے زیادہ پیارا بنا دے۔ اور یہ دعا گناہ نہیں ہے، جائز ہے۔ یا اﷲ! آپ کو ایک لمحہ ناراض کرکے حرام خوشی کو اختر اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے، اپنے احباب کے لیے جہنم سے زیادہ تکلیف دہ سمجھتا ہے، اے خدا !اپنی رحمت سے آپ ہم سب سے خوش ہوجائیے، ہم آپ کی خوشی چاہتے ہیں اور آپ کی ناراضگی سے حفاظت مانگتے ہیں اور اے اﷲ! ہم سب کی عقل پر اپنے فضل کا سایہ فرما۔ کیسی پیاری دعا ہے یہ! کہ ہم سب کی عقل پر اپنے فضل کا سایہ فرما اور شیخ سے حسنِ ظن دے دے اور شیطان کی بدگمانیوں سے ہمارے قلب کو پاک فرما، آمین۔سُوْءِ الْقَضَاء کی شرح وَدَرْکِ الشَّقَاء کے بعد سُوْءِ الْقَضَاء ہے کہ اے اﷲ! وہ فیصلے جو میرے لیے مضر ہیں ان سے ہمیں پناہ دے دیجیے۔یہاں قضاء مصدر ہے اور جب مصدر پر الف لام داخل ہوجائے تو وہ اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول دونوں کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے، تو حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اگر یہاں اسمِ فاعل کے معنیٰ میں لوگے تو کفر کا خطرہ ہے کہ بحیثیت قاضی کے اﷲ کے فیصلے پر سُوْءلگارہے ہو، اگرتم نے سُوْءلگایا تو بُرائی کی نسبت اﷲ کی طرف ہو جائے گی لہٰذا یہاں قضاء اسمِ مفعول کے معنیٰ میں ہے یعنی سُوْءُ المُقْضٰیہے جس کے لیے آپ یہ فیصلہ فرمارہے ہیں اس کے حق میں تو مضر ہے لیکن آپ کا فیصلہ حکیمانہ ہے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے، اس میں کوئی سُوْءنہیں ہے،تو یہاں قضاء مصدر معنیٰ میں ا سم مفعول کے ہے یعنی سُوْء کی اضافت بحیثیت اللہ کے قاضیہونے کے نہیں ہے، بلکہ بحیثیت مقضی کے ہے کہ اے اﷲ! جو ہمارے لیے مضر فیصلے ہیں ان کو آپ مفید فیصلےسے تبدیل فرما لیجیے۔ مولانا رومی کا یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا کہ اے خدا! آپ کا فیصلہ اور آپ کی قضا آپ کی محکوم ہے آپ پر حاکم نہیں ہے۔ آہ! یہ جملہ اس قدر عارفانہ مقام کی دلالت کرتا ہے جس کی حد نہیں۔ اﷲ پر کوئی چیز حکومت کر سکتی ہے؟لہٰذا جب آپ کی قضا آپ کی محکوم ہے تو آپ اس قضا کو کراس(X) کرکے میرے لیے مفید فیصلہ کردیجیے، ورنہ جو فیصلہ کرنے کے بعد مجبور ہوجائے وہ خدا کیسا ہے؟ مخلوق جو کہتی ہے کہ اﷲ کا لکھا ٹلتا نہیں ہے تو اسے مخلوق نہیں ٹال سکتی، لیکن اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ اﷲ میاں بھی اپنا لکھا نہیں کاٹ سکتے ؎