آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
علیہ کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ جس نے اپنے کو کچھ سمجھ لیا بس سمجھ لو کہ وہ ڈوب گیا، تکبر وعجب اور پندار سے اس کی کشتی غرق ہوگئی، اسی لیے یہ اس راستے کی برکت ہے کہ مرید اپنے کمالات کو شیخ کی طرف منسوب کرتا ہے۔پیری مریدی کا طریقہ اَقْرَبْ اِلَی السُّنَّۃْ ہے ارشاد فرمایا کہ شیخ ہمیشہ شیخ رہتا ہے، شیخ کبھی مرید کا مرید نہیں ہوسکتا، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آج ایک تشکیل میں وہ اپنے مرید کا امیر ہے کل دوسری تشکیل میں وہ اس کا مامور ہوجائے، پیری مریدی کا طریقہ اَقْرَب اِلَی السُّنَّۃ سنت کے سب سے زیادہ قریب ہے، کیوں بھئی نبی کبھی امتی ہوسکتا ہے؟ تو شیخ کبھی مرید نہیں ہوسکتا، شیخ اپنے مرید کے قلب پر ہمیشہ امیر رہے گا، ا س کی حکومت و سلطنت ہمیشہ رہے گی۔دین کے تمام شعبے ایک دوسرے کے رفیق ہیں، فریق نہیں لیکن تبلیغی جماعت ہو یا درس و تدریس ہو یا شیخ سے اصلاحی تعلق ہو، ہر کام ضروری ہے، ہر کام کو اپنا رفیق سمجھو، اسلام کے جتنے بھی طریقے ہیں سب ایک دوسرے کے فریق نہ بنیں رفیق بنیں۔ جیسے ریلوے ڈیپارٹمنٹ میں کوئی بجلی ٹھیک کرتا ہے، کوئی ٹکٹ دیتا ہے، کوئی ٹکٹ چیک کرتا ہے، کوئی اسٹیشن ماسٹر ہے، کوئی گارڈ ہے جو جھنڈی دکھاتا ہے اور کوئی ڈرائیور ہے جو ریل کا انجن چلاتاہے، ہر ایک کہتا ہے کہ بھئی ہم لوگ ڈیپارٹمنٹ کے آدمی ہیں توایسے ہی کوئی تبلیغی جماعت سے متعلق ہے، کوئی بخاری شریف پڑھا رہا ہے، کوئی امامت کررہا ہے، کوئی نورانی قاعدہ پڑھا رہا ہے، سب ایک ہی ڈیپارٹمنٹ یعنی اسلام کے آدمی ہیں، انہیں فریق مت بناؤ، ورنہ پھر اس تفاضل اور تقابل سے دین میں اختلاف شروع ہوجائے گا، لیکن صحبتِ اہل اللہ کا اہتمام بغرضِ اصلاحِ نفس سب کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اخلاص ہی پیدا نہیں ہوتا۔قطب الاقطاب حضرت مولانا سخاوت علی صاحب کا واقعہ ارشاد فرمایا کہ میرے مرشد شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ سید احمد شہید رحمۃاﷲ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا سخاوت علی صاحب رحمۃاﷲ علیہ کے دستخط سے لوگ قطب ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ بارہ بجے رات کو ایک آدمی پر چہ لایا، انہوں نے اس پر دستخط کیے، وہ آدمی باہر نکلا تو مولانا کا خادم جو ان کے پیر دبا رہا تھا وہ بھی جلدی سے اس کے پیچھے دوڑا کہ بارہ بجے رات کو کون آیا ہے جو دستخط کراکے جارہا ہے، تو دیکھا کہ وہ آدمی سیڑھی سے اُترا ہی نہیں اور غائب ہوگیا ؎