آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اللہ والوں کی تمثیل بازِ شاہی سے تو دوستو! مجاہدے کی ضرورت بہت اہم ہے۔ جو لوگ بڑے بڑے مشایخ کے پاس رہ کر بھی محروم رہے انہوں نے مجاہدہ نہیں کیا، شیخ کے ساتھ طبعی محبت بھی تھی مگر مجاہدے سے جان چرائی، اﷲ پر جان کی بازی نہیں لگائی، بازِ شاہی کے ساتھ تو رہے مگر شاہ بازی نہیں سیکھی، اﷲ والے بازِشاہی ہیں، مگر بازِ شاہی کے ساتھ رہ کر شاہ بازی نہیں سیکھی، کرگس رہے۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا والو! میں نے شمس الدین تبریزی کے ساتھ جو دن لگائے ہیں ؎ بازِ سلطاں گشتم و نیکو پیم فارغ از مردارم و کرگس نیم اس بازِ شاہی شمس الدین تبریزی کی صحبت کے صدقے میں میں بھی بازِ شاہی بن چکا ہوں، بازِ سلطاں ہوچکا ہوں اور میں ٹیڈیوں اور ٹیڈوں کو، لیڈیوں اور لیڈوں کو دیکھنے سے بچ گیا، اب میں پاک ہوگیا ہوں، اب میں مردوں کو نہیں دیکھتا، عارضی ڈسٹمپروں سے میں خلافِ پیغمبر نہیں رہتا، اب میں گدھ نہیں ہوں کہ مُردوں کو، مرنے والی لاشوں کو دیکھتا رہوں، یہ تو آج زندہ ہیں کل کو مریں گی یا نہیں؟ خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎ ارے یہ کیا ظلم کررہا ہے کہ مرنے والوں پہ مررہا ہے جو دم حسینوں کا بھر رہا ہے بلند ذوقِ نظر نہیں ہے یہ کتنا پیارا شعر ہے! اﷲ ہم سب کو یہ مقام نصیب فرمائے، تاکہ ہم لوگ بھی اپنے شیخ کی محبت میں کہہ سکیں کہ دنیا والو! سن لو ؎ بازِ سلطاں گشتم و نیکو پیم فارغ از مردارم و کرگس نیم اب ہم بازِ سلطاں بن چکے ہیں اور مردہ خوری سے پاک ہوگئے ہیں۔ کوئی کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو اسے نہ دیکھو۔ چاہے کوئی بین الاقوامی حسن میں اوّل آئی ہو اور اس کے بارے میں اعلان ہوجائے کہ وہ اس شہر میں فلاں سڑک پر دن کے بارہ بجے دو گھوڑے والے تانگے پر بیٹھ کر گزرے گی، تو جتنے گھوڑے ہیں سب وہاں پہنچ جائیں گے اور جتنے انسان ہیں وہ نہیں جائیں گے، اﷲ والے سوچیں گے کہ آج جو گڑیا ہے وہ ایک دن ستّر سال