آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سوگئے، بہت عمدہ نیند آتی تھی، ریت پر گدّے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خود گدّا ہے، بس چادر بچھاؤ گدّا موجود۔ تو ہم آٹھ دس آدمی تھے ان میں میر صاحب بھی تھے، میر صاحب! کیسا مزہ آتا تھا (احقر نے عرض کیا:جی، عجیب و غریب مزہ تھا، ویسا مزہ کبھی نہیں آیا۔) آہ! اﷲ کا شکر ہے، موسم ایسامعتدل تھا کہ نہ سردی تھی نہ گرمی، درمیانہ موسم تھا۔ تو آج اﷲ نے مجھے اتنی بڑی بات یاد دلادی کہ شیخ الہند رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا کہ کبھی ایسے بھی دعا مانگ لو تو قبولیت میں شک نہیں، ان شاء اﷲ جو مانگوگے سب قبول ہوگا، دریا کا لباس جسم پر اور دریا کا پانی پیٹ میں، مگر پہلے وضو کر لو یا نہالو، اب درود شریف پڑھ کے دیر تک دعا مانگو، آخر میں پھر درود شریف پڑھ لو۔ تو اس دریا کے کنارے میرا بیان چھ بجے سے ایک بجے تک سات گھنٹے ہوا تھا اور کوئی تھکا بھی نہیں اور میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کسی کو کچھ چائے وغیرہ یاد آئی؟ انہوں نے کہا کہ آج تو ناشتہ یاد ہی نہیں آیا، میں نے کہا: اﷲ کے نام کو کیا سمجھتے ہو؟ مالک کے نام میں سب کچھ موجود ہے، سب دوستو کو ایسا مزہ آیا کہ ناشتہ بھی بھول گئے۔حضورﷺ کے مخصوص اوقاتِ قرب کا ایک واقعہ اب ایک واقعہ سنو کہ اﷲ کتنے پیارے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تہجد کی ایک رکعت میں پانچ پانچ پارے پڑھتے تھے اور آپ کے پاؤں مبارک متورم ہوجاتے تھے، پنڈلی مبارک سو ج جاتی تھی، لیکن آپ کی روحِ مبارک جس پر قرآن پاک نازل ہوتا تھا اس کو تلاوت میں کتنا مزہ آتا تھا اس کو سوچو، اُس وقت آپ کی روحِ مبارک عرشِ اعظم پر پہنچ جاتی تھی۔ یہ روایت ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھی ہے اور بالکل صحیح ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تہجد پڑھ کر فارغ ہوئے اور آپ کی روحِ مبارک عرشِ اعظم پر تھی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجۂ مبارکہ، ہماری ماں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیٹی ہیں عرض کیا یارسول اﷲ(صلی اﷲ علیہ وسلم)!آپ نے فرمایا: مَنْ اَ نْتِ؟تم کون ہو؟عرض کیا:اَنَا عَائِشَۃُ میں عائشہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ عَائِشَۃُ؟یعنی آپ نے حضرت عائشہ کو نہیں پہچانا یہ ہے اﷲ کے پیارے ہونے کی دلیل کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ کی یاد میں اتنا مزہ آیا کہ اس وقت اپنی بیوی کو بھی نہیں پہچانا، تو حضرت عائشہ نے عرض کیا بِنْتُ اَبِیْ بَکْرٍ کہ میں ابو بکر صدیق کی بیٹی ہوں، فرمایا