آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
میری غذا، آپ ہی میری روٹی، آپ ہی میرا پانی اور آپ ہی میری چائے ہو۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے رمضان کا ایک مہینہ رکھ دیا کہ تم محبت کی اس ادا کو بھی حاصل کرلو مگر دن رات بھوکے پیاسے نہ رہو، سحری اور افطاری میں خوب کھاؤ۔افطار کے وقت دعا کے قبول ہونے کا راز دیکھو! آپ کو حدیث تو معلوم ہوجائے گی کہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، مگر دعا قبول ہونے کا راز کیا ہے؟ یہ اختر سے سنو گے کہ سخت گرمی ہے، افطاری میں شربت روح افزا میں برف کے ڈلے پڑے ہوئے ہیں اور دہی بڑے بھی ہیں لیکن کوئی روزے دار ان نعمتوں کی طرف ہاتھ بڑھاتاہے جب تک کہ اللہ اکبر کی آواز نہ آجائے؟ تو اﷲ تعالیٰ کو یہ ادا پسند آتی ہے کہ دہی بڑے میرے بندوں کے سامنے ہیں، مگر روزہ دار کہتا ہے کہ اے دہی بڑے جب تک یہ آواز نہ آئے کہ اﷲ بڑا ہے میں تجھے نہیں کھاؤں گا، تو یہ ادائے بندگی اﷲ کو پسند آتی ہے کہ شدید پیاس ہے، شربت سامنے ہے،مگرمیرے بندے بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہیں، منہ میں کچھ نہیں لے جارہے ہیں، شدید پیاس ہے مگر نہیں پی رہے ہیں اللہ اکبرکی آواز کا انتظار ہے، تو کیا ایسے منہ کی دعا قبول نہ ہوگی؟ تو رمضان شریف کا روزہ بھی سراسر محبت ہے کہ محبوب کی یاد میں پیٹ جلانا بھی سیکھو،اس لیے رمضان کا ایک مہینہ کا روزہ فرض کردیا۔ بعض وقت جب عید کا چاند نظر آیا تو بعض دوست میرے پاس آئے کہ ہائے افسوس! مبارک مہینہ چلا گیا۔ میں نے کہاکہ سنیے! زیادہ ہائے افسوس مت کرو، ورنہ اگر جبرئیل علیہ السلام نے سفارش کردی کہ کچھ بندے بڑے افسوس میں ہیں اور ایک مہینہ کا روزہ رکھواؤ اور شوّال کا بھی روزہ فرض ہوجائے گا، تو ظالمو پھر کہو گے کہاﷲ میاں غلطی ہوگئی، روزوں کا ایک مہینہ ہی رہنے دیجیے۔ اس لیے میں نے کہا کہ جب عید کا چاند نظر آئے تو افسوس مت کرو کہ ہائے اتنا اچھا مہینہ چلا گیا، خوشی مناؤ۔ حدیث شریف میں ہے: اِنَّ ھٰذِہٖ اَ یَّا مُ اَکْلٍ وَّ شُرْبٍ وَّ بِعَالٍ؎ عید کا دن خوشی منانے کا دن ہے۔ جب رسولِ خدا، صاحبِ شرع کہہ رہا ہے کہ خوشی مناؤ، تو کون بے وقوف ہے جو غم منائے گا؟ لہٰذا جب عید کا چاند نظر آئے تو خوشی مناؤ، کیوں کہ عید کے معنیٰ خوشی کے ہیں۔ اب بتاؤ! ------------------------------