آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
خار سمجھا تھا جسے اہلِ جہاں نے اخترؔ دامنِ فقر میں اس کے ہی گلستاں نکلا ۱۸ ؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء، بروز ہفتہ، بعدمغرب، بمقام مسجد حمزہ ، لینیشیاپیامِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت والا نے حسب معمول مسجد حمزہ میں نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد حکم فرمایا کہ کرسی لاؤ اور کرسیپر تشریف فرما ہوئے اور مولانا منصورالحق صاحب سے فرمایا کہ نعت پڑھیں۔مولانا نے حضرت والا کی یہ نعت پڑھی ؎ یہ صبحِ مدینہ یہ شامِ مدینہ مبارک تجھے یہ قیامِ مدینہ نگاہوں میں سلطانیت ہیچ ہوگی جو پائے گا دل میں پیامِ مدینہ ارشاد فرمایا کہ وہ کیا پیام ہے کہ جس سے سلطانیت ہیچ ہورہی ہے؟ بارگاہِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیام یہ ہے کہ تم سب اللہ والے بن جاؤ۔ اگر تم مولیٰ کو پاگئے تو دونوں جہاں کیا دونوں جہاں سے بڑھ کر پاگئے، دونوں جہاں کا حاصل پاگئے۔ اور جس ظالم کو اللہ نہیں ملا تو کارخانہ، فیکٹری، تاجِ سلطنت اور تختِ شاہی کے باوجود دنیا میں اس سے بڑا غریب اور مسکین اور خسارہ میں کوئی نہیں، اور جو مولیٰ کو پاگیا اس سے بڑا امیرکوئی نہیں۔ دونوں جہاں کا پیدا کرنے والا جس کے دل میں آجائے وہ امیر نہیں ہوگا؟ ایک فقیر درویش سے کسی نے کہاکہ آپ شاہ صاحب کہلاتے ہیں آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس سونے کاایک ذرّہ بھی نہیں ہے، میں تو فقیر ہوں لیکن جو سونا پیدا کرتا ہے وہ میرے دل میں ہے، میں دل میں خالقِ زر رکھتا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ کتنا سموسہ کھاتے ہو، کتنا پاپڑ،کتنی کڑھی اور بریانی کھاتے ہو تو اﷲ والا جواب دیتا ہے کہ جو اللہ کھلادیتا ہے کھا لیتا ہوں، لیکن چوں کہ میرا مراقبہ یہ ہوتا ہے کہ یہ رزق میرے مولیٰ نے بھیجا ہے، اس لیے مجھے دال روٹی میں بھی بریانی کا مزہ آتا ہے ۔ جو دونوں جہاں کی لذت کا پیدا کرنے والاہے، جوجنت کی نعمتوں کا پیدا کرنے والا ہے، جو حوروں میں حسن ڈالنے والا ہے وہ جو میرے دل میں آج موجود ہے اور اسی نے محنت کی توفیق دی کہ مولیٰ مجھ کو مل جائے۔ جنت تو اُدھار ہے لیکن مولیٰ نقد ہے ؎