آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ذات سے قائم ہے اور دوسروں کو اپنی قدرتِ قاہرہ سےسنبھالے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ زمین و آسمان ہمارےحکم سے قائم ہیں۔ وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ تَقُوۡمَ السَّمَآءُ وَ الۡاَرۡضُ بِاَمۡرِہٖ ؎ چوبیس ہزار میل کا یہ زمین کا گولا اور سورج اور چاند اور بے شمار سیارے اور نجوم بغیر ستون اور بغیر کسی سہارے کے اللہ کے حکم سے قائم ہیں۔ پس ان دو اسمائے اعظم کے صدقہ میں ہمارے قلوب کو سنبھالنا اللہ کو کیا مشکل ہے۔لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ…الخ کا عاشقانہ ترجمہ اورلَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنْتَ کا عاشقانہ ترجمہ اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا کہ آپ کے سوا ہمارا کون ہے؟ آپ کے سوا نہ ہمارا کوئی معبود ہے نہ مقصود ہے، نہ مطلوب ہے۔ اور سُبْحٰنَکَیعنی آپ پاک ہیں ہر عیب سے،لیکن ہم اتنے ظالم ہیں کہ آپ جیسے پاک اور بے عیب مولیٰ کو چھوڑ کر عیب داروں پر مررہے ہیں، اس لیے ہم اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَبھی ہیں۔ یہاں سُبْحٰنَکَ میں اور اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَکے اعتراف میں یہ ربط ہے۔ صاحبِ قونیہ ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد اور شاہِ خوارزم کا سگا نواسہ اورشمس الدین تبریزی کا بے مثل مریدمولانا جلال الدین رومی اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ کی وجہ مثنوی میں بیان کرتے ہیں کہ ہم ظالم کیوں ہیں۔ فرماتے ہیں ؎ پیشِ نورِ آفتابِ خوش مساغ رہنمائی جستن از شمع و چراغ وہ آفتاب جو بارہ بجے دن کے شمسِ بازغہ ہو کر خوش رفتاری کے ساتھ آسمان پر چل رہا ہو، اس نورِ عالم تاب کے ہوتے ہوئے موم بتی اور چراغ سے رہنمائی حاصل کرنا ظلم ہے یا نہیں؟ تو اے اللہ! ہم ظالم ہیں کہ آپ جیسے مولیٰ کے ہوتے ہوئے جو وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ اور لَامِثْلَ لَہٗ ہے ہم لوگ غیر مولیٰ سے ، عیب داروں سے دل لگاتے ہیں، ان کا سہارا لیتے ہیں، ان سے رابطہ رکھتے ہیں، ان پر فریفتہ ہوتے ہیں، دل بستہ ہوتے ہیں، وابستہ ہوتے ہیں لہٰذا اختر برجستہ اور بے ساختہ مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ کی ترجمانی کرتا ہے کہ حسنِ فانی پر مرنا ظلم ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ بے گماں ترکِ ادب باشد زِ ما کفرِ نعمت باشد و فعلِ ہویٰ ------------------------------