آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اس طرح دردِ دل بھی تھا میرے بیاں کے ساتھ جیسے کہ میرا دل بھی تھا میری زباں کے ساتھ اور ایک ملک میں کسی نے کہا کہ تمہاری تقریر میں بہت مٹھاس معلوم ہوئی، تو میں نے کہا کہ ؎ اس درجہ حلاوت ہے مرے طرزِ بیاں میں خود میری زباں اپنی زباں چوس رہی ہے جب مٹھاس زیادہ ہوتی ہے تو اپنی زبان کی مٹھاس کو انسان چوستا ہے تب آگے مٹھائی جاتی ہے، ورنہ لائن کلیئر نہیں ہوتی۔صحبتِ شیخ کے ساتھ مجاہدہ بھی ضروری ہے تو دوستو! میں کہہ رہا تھا کہ شیخ کی صحبت جس کو نصیب ہوجائے تو وہ مجاہدے کی بھی ہمت کرے تاکہ محرومی کا شکار نہ ہو اور شیخ کا پورا فیض اس کے اندر آجائے، پست ہمتی نہ کرے، تلّی کی طرح مجاہدہ کرکے اپنے آپ کو رگڑوالے تا کہ گلاب کے پھول کی پوری خوشبو اس کے اندر آجائے پھر جب کولہو میں پیلا جائے گا تو جو تیل نکلے گا وہ روغنِ گل کہلائے گا،اور اگر تم نے مجاہدہ نہیں کیا اور اپنے نفس کے موٹے موٹے پردے نہیں رگڑوائے،بدنظری اور گناہوں سے اپنے کو نہیں بچایا تو پھر ساری زندگی شیخ کے ساتھ رہو گے، لیکن اس کا فیض نہیں آئے گا حیض ہی رہے گا۔ جو لوگ مجاہدے سے گریز کرتے ہیں،یہ حق تعالیٰ کے قرب سے گریزاں ہیں، اﷲ کو چاہتا تو ہے مگر اس کی راہ میں مجاہدے سے گریزاں ہے، یہ ایک قسم کا گریز ہے، یہ اﷲ والا نہیں بننا چاہتا، اس لیے ہمت سے کام لو، جب تلّی کا تیل مجاہدے کرے گا تو پھر گلاب کے پھول کی پوری خوشبو اس میں آئے گی اور تلّی کا تیل مجاہدہ کی برکت سے روغنِ گل کہلائے گا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ روغنِ گل بننا زیادہ بہتر ہے یا تل کا تیل رہنا؟ تو ایسے ہی شیخ کا فیض اگر لینا ہے تو ایک لمحہ بھی اﷲ کو ناراض نہ کرو، اﷲ پر جان کی بازی لگادو۔ ایک سانس بھی اﷲ کو ناراض کرکے دل میں حرام مزہ لوٹنے والا یہ ڈاکو ہے، چور ہے، بے غیرت ہے، کمینہ ہے۔ جس کی کھاؤ اس کی گاؤ۔