آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قوانین علماء نحو کے پابند نہیں ہیں۔ علماء نحو مخلوق ہیں، خالق مخلوق کی گرامر کا پابند نہیں ہے۔ اب رہ گیا یہ کہ اس میں مصلحت کیا ہے؟ تو مصلحت یہ ہے کہ قیامت تک مخلوق کو معلوم ہوجائے کہ صحابہ نے جو اپنے کو مٹایا ہے وہ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی ذلیل لوگ تھے۔ ان کا یہ تذلّل و فنائیت و انکساری مَعَ عُلُوِّ شَانِہِمْ وَ فَضْلِ مَرَاتِبِہِمْ؎ تھا یعنی یہ انتہائی اعلیٰ درجہ کے لوگ تھے، لیکن اس علو کے باوجود اپنے بھائیوں کے سامنے اپنے نفس کو مٹا دیا۔ ان کے مٹنے سے، ان کی تواضع و فنائیت سے یہ نہ سمجھنا کہ یہ ذلیل لوگ ہیں،یہ بڑے علوِِّ مراتب سے مشرف ہیں، اس لیے اللہ نے ان کا علٰی قائم رکھا اورلام کا صلہ استعمال نہیں فرمایا۔ یہ ہے اللہ کے کلام کی بلاغت۔ ان کی علوِ شان اور فضلِ مراتب کی دلیل یہ ہے کہ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ اور کافروں پر سخت ہیں۔ کافروں کے ساتھ جب جہاد ہوتا ہے تو اپنے کو حقیر نہیں ظاہر کرتے، جہاد میں خوب ہمت سے لڑتے ہیں اور بارڈر پر کافروں کے مقابلے میں یہ نہیں کہتے کہ اے کافرو! ناچیز حقیر فقیر عبدالقدیر لڑنے کے لیے آیا ہے بلکہ کہتے ہیں کہ اگر تم سیر ہو تو ہم سوا سیر ہیں۔ یہودی، عیسائی اور جملہ کفار سے لین دین جائز ہے مگر دل میں ان سے محبت رکھنا حرام ہے۔ معاملات جائز ہیں موالات حرام ہیں۔ بزنس اور لین دین کا نام معاملات ہے جو جائز ہے، مگر کافروں سے محبت حرام ہے، لہٰذا اس آیت سے پہلے اعلان ہوگیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ ؎ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست مت بناؤ۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ فَاِنَّ مُوَالَاۃَ الْیَہُوْدِ وَ النَّصَارٰی تُوْرِثُ الْاِرْتِدَادَ؎ جو یہودی اور عیسائی یعنی کافروں کو دوست بنائے گا وہ آخرش مرتد ہوجائے گا۔اہلِ وفا کی تیسری علامت اللہ کے باوفا بندوں کی تیسری علامت کیا ہے؟ یُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِجس کی چار تفسیر ہے: ------------------------------