آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
رحمۃ اﷲ علیہ جن کے صاحب زادے مولانا سلمان یہاں تشریف فرما ہیں، فرماتے تھے ؎ ترے غم کی جو مجھ کو دولت ملے غمِ دو جہاں سے فراغت ملے اگر اﷲ تعالیٰ کے غم کا ایک ذرّہ نصیب ہوجائے تو دونوں جہاں کے غم سے ہم کو نجات مل جائے۔ اﷲ کا غم جس کو ملا اس کو نہ دنیا کا غم ہے نہ آخرت کا غم ہے۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب لاٹھی پھینکی تو وہ اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپ اور بچھوؤں کو نگل گئی۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت کے غم میں یہی تاثیر رکھی ہے کہ جس کو خدا کا غم ملتا ہے وہ دونوں جہاں کے غم کو نگل جاتاہے، یہ غم عصائے موسوی سے کم نہیں ہے، عصائے موسوی سے اعلیٰ مقام کی چیز ہے، یہ اﷲ کی محبت کا غم ہے، یہ معمولی بات نہیں ہے۔غمِ تقویٰ نصیبِ دوستاں ہے میں یہی کہتا ہوں کہ بس اﷲ کی محبت کا غم مل جائے، ایک ذرّہ اﷲ کی محبت کا غم یہی ہے کہ مالک کو ناخوش کرکے حرام خوشیاں اپنے دل میں نہ آنے دو اور ہر وقت خدا پر فدارہو اور اس غم کی یہ حقیقت ہے کہ اگر سارے عالم کی خوشیاں اس غم کو استقبالیہ اور گارڈ آف آنر پیش کریں تو واﷲ کہتاہوں کہ اﷲ کی محبت کے ایک ذرّہ غم کا حق ادا نہیں ہوسکتا ، یہ نصیبِ دشمناں نہیں ہے، یہ نصیبِ دوستاں ہے، اﷲ اپنے دوستوں کو یہ غم دیتا ہے، اور نافرمانی کی حرام لذتیں یہ نصیبِ دشمناں ہے، نصیبِ فاسقاں ہے، نصیبِ عاصیاں ہے۔غمِ تقویٰ کا مقام اﷲ کے راستے کے ایک ذرّہ غم کا تو یہ مقام ہے، اور اگر اﷲ کے راستے کا ایک کانٹا چبھ جائے، دل کو دُکھ پہنچ جائے، زخمِ حسرت لگ جائے کہ آہ کیسی شکلیں تھیں کاش کہ دیکھتے مگر میرے مولیٰ آپ نے منع کردیا، ہم اپنے دل کوآپ پر فدا کرتے ہیں ، قلب کو بھی اور جذبات کو بھی یعنی ظرف بھی اور مظروف بھی، ہم خونِ آرزو کے لیے تیار ہیں، لاکھ ہماراخون آپ پر بہہ جائے تو بھی آپ کی قیمت ہم سے ادا نہیں ہوسکتی، اور خونِ آرزو کیا چیز ہے! ہم اپنی گردن کا خون بھی آپ پر پیش کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر اﷲ کے راستے میں