آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کل تھیں جن پر جوانی کی انگڑائیاں اب ہیں ان پر بڑھاپے کی پرچھائیاں فرمایا کہ انگڑائیاں کے وزن پر لنگڑائیاں کہو، لنگڑے لولے چل رہے ہیں، ساری اکڑفوں ختم۔ بڈھا لنگڑا کے چلتا ہے کہ نہیں؟ دیکھو کیسا مصرع ہے، پھر پڑھو اس شعر کو ؎ کل تھیں جن پر جوانی کی انگڑائیاں اب ہیں ان پر بڑھاپے کی لنگڑائیاں دیکھو کیسی اصلاح ہوئی۔صحبت یافتۂاہل اللہ مردود نہیں ہوتے سایۂ شیخ ہے گوشۂ عافیت جب جلائیں تمہیں نفس کی گرمیاں دیکھو میں مولانا منصور کے اس مضمون کی تائید مولانا رومی کے ایک شعر سے کرتاہوں ؎ سایۂ رہبر بہ است از ذکرِ حق یک قناعت بہتر از صدہا طبق اگر ایک آدمی تنہائی میں ذکر کر رہا ہے اس سے بہتر ہے کہ وہ سایۂ شیخ میں رہے، اور دلیل کیا ہے ؟ طبق میں سینکڑوں کھانوں سے بہتر ہے کہ ایک کھانے پر قناعت کرے۔ مولانا کا مقصد یہ ہے کہ ذکر کی وجہ سے تمہارے اندر تکبر آسکتا ہے کہ میں کوئی وی آئی پی، کوئی بہت اہم شخصیت ہوں، ایک لاکھ دفعہ اﷲ کا نام لیتا ہوں۔ تو اس سے نشۂ تکبر آسکتا ہے، جیسے ابلیس بے حد ذاکر تھا، اس ظالم میں عبادت کی کمی نہیں تھی،لیکن عبادت ہی سے تکبر کے نشے میں مبتلا ہوکر مردود ہوگیا۔ لیکن سایۂ شیخ میں کتنی ہی مختصر عبادت کرے وہ ایک لاکھ سال کی عبادت سے افضل ہے، کیوں کہ اس سے تکبر سے حفاظت رہتی ہے، شیطان کثرتِ عبادت کے باوجود مردودیت سے نہیں بچ سکا اور اہل اﷲ کے صحبت یافتہ سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر اسلام سے خروج ان شاء اﷲ نہیں ہوگا۔