آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
بھی اﷲ کا عذاب آیا۔ اس نے کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد بھی میری سات پشت بیٹھ کر بریانی کباب کھائے گی۔ اب سنو کیا عذاب آیا۔ اس کے پیٹ میں السر ہوا پھر کینسر ہوا اور حلق میں بھی کینسر ہوگیا، اب کچھ بھی نہیں کھا سکتا تھا، پیٹ پھاڑ کر ربڑ کی ایک نلکی لگائی گئی اور اس کو دو تولے جَو کا پانی پینے کی اجازت ملی، اب نہ کباب ہے نہ بریانی، آخر کار سوکھ سوکھ کر مرگیا۔ تو دوستو! اﷲ سے ڈرو اور اﷲ کی محبت سیکھو، اﷲ والے بن جاؤ، تم سے بڑا کوئی مال دار نہیں ہوگا۔ دیکھو صحابہ کو اﷲ تعالیٰ نے جب ہجرت کا حکم دیا تو کسی صحابی نے نہیں کہا کہ میرا جما جمایا کاروبار ہے، جمی جمائی دوکان ہے، اے اﷲ! ہمارے اوپر یہ ظلم نہ کر، ہم لوگ یہیں رہیں گے، کسی نے یہ بات کہی؟ سب نے جمی جمائی دوکانیں اور کاروبار چھوڑ دیا اور مدینہ شریف چلے گئے۔ صحابہ کا ایمان دیکھا! لیکن سنو دوکان تو چھوڑدی، رزق کے وسائلو اسباب تو چھوڑدیے، مگر رزّاق اور رزق دینے والے کو اپنے ساتھ مدینہ پاک لے گئے اور پھر دیکھ لو کہ کیسے رہے؟ اﷲ نے ایسی عزت دی کہ سارے عالم میں اسلام وہیں سے پھیلا۔ ۲۱؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق۱۳؍اکتوبر ۱۹۹۸ء بروز منگل،بعد عشاء، ملاوی جھیل کے کنارےحدیثِ احسان اور اس کی شرح حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کرام حاضر تھے کہ اچانک ایک صاحب جن کی نہایت کالی داڑھی تھی بہت عمدہ سفید لباس میں آئے۔ انہیں دیکھ کر ہم سوچنے لگے کہ یہ مدینہ کا آدمی ہوتا تو ہم پہچان جاتے، کیوں کہ اس زمانے میں مدینے کی آبادی بہت تھوڑی تھی اور اگر یہ باہر سے آتا تو اس کے کپڑے پر گرد و غبار ہوتا کیوں کہ اس وقت سٹرکیں پکی نہیں ہوتی تھی، جو مسافر ہوتا تھا گرد و غبار سے اٹا ہوتا تھا، تو ہم سوچ رہے تھے کہ یااﷲ! یہ نیا آدمی کون ہے؟ اتنے میں وہ حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے مبارک گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور پوچھا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم)! ایمان کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اﷲ تعالیٰ کی توحید اور میری رسالت پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ۔پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ احسان وہ نعمت ہے کہ ہر وقت یہ خیال ہو کہ اﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے، ایسے عبادت کرو کہ اﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ تو میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ نے جو ایک واسطے سے بخاری شریف میں مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگرد تھے، فرمایا کہ اس کی شرح یہ ہے کہ احسان جب نصیب ہوتا ہے کہ دل میں ہر وقت