آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہمارے ایک دوست جو میرے خلیفہ بھی تھے، مجذوب تھے، مغرب سے عشاء تک وہ ذکر میں روتے تھے، حکیم بھی تھے، کسی کے سوئیٹرکے اوپر سے انجکشن لگادیا، کسی کی پتلون کے اوپر سے لگا دیا، اگر کوئی کہتا کہ انجکشن لگانے سے پہلے اسپرٹ نہیں لگایا، جراثیم چلے جائیں گے، تو کہتے کہ ہم نے جراثیم کے خالق سے رابطہ کیا ہوا ہے، کوئی جراثیم نہیں آئیں گے۔ بڑے صفات کے آدمی تھے۔ ٹیکسلا میں رہتے تھے، دور دور سے مریض آتے تھے، بڑے بڑے ڈاکٹر ان کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکے، جبکہ وہ پرانے کائی لگے ہوئے لوٹے کے پانی سے سرنج صاف کرتے تھےتو ان سے کسی نے کہا کہ اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا؟ سارا معاشرہ خراب ہے، تم اکیلے کیسے دین پھیلاؤ گے؟ انہوں نے کہا کہ اگر اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا خود تو پھوٹ سکتا ہے، ہم اﷲ پر فدا ہوجائیں، ہمارا کام بن گیا، ہم نہیں جانتے سوسائٹی بدلے یا نہیں، ہم سوسائٹی کے ذمہ دار نہیں ہیں، کوشش تو کرتے ہیں، لیکن اگر سوسائٹی نہیں مانتی تو کم سے کم ہمیں تو جنت مل جائے گی، ہم سے تو اﷲ راضی ہوجائےگا۔ کیسی پیاری بات کی! تو میں حکیم صاحب کا قصہ سنا رہا تھا کہ وہ جب ہندوستان سے آئے تو وہاں ان کا دوا خانہ تھا، یہاں روزی نہیں ملی تو برف بیچنا شروع کیا، تو کیوں کہ پنڈی میں سڑک اونچی نیچی ہے، لہٰذا سائیکل پر پیچھے برف کی دومن کی سل رکھی ہے اور وہ بے چارے پتلے دبلے تھے تو اﷲ سے کہہ رہے ہیں کہ اﷲ میاں! آپ نے مجھے گدھا تو نہیں پیدا کیا جو گدھے والا کام لے رہے ہیں اور میں بوجھ اٹھا رہا ہوں، آپ نے انسان پیدا کیا ہے تو آپ مجھ پر رحم کر دیجیے، میری روزی کو آسان کر دیجیے یعنی مشقت کی روزی سے نجات دیجیے۔ پھر اس کے بعد اﷲ نے ان کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے۔مگر دعا کیسی کی کہ اﷲ میاں آپ نے مجھے گدھا تو نہیں بنایا او رکام لے رہے ہیں آپ گدھے والا!یہ مجذوبوں کی بڑ ہے، سب ایسا نہ کہیں، مجذوب بچوں کی طرح ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کی بات پر ناراض نہیں ہوتے۔معافات کی تشریح اور معافات کےمعنیٰ ہیںاَنْ یُّعَافِیَکَ اللہُ مِنَ النَّاسِاﷲ تمہیں مخلوق کے شر سے بچائے، وَیُعَافِیَھُمْ مِنْکَاور مخلوق کو تیرے شر سے بچائے۔ جو مخلوق کے شر سے بچ جائے اور مخلوق اس کے شر سے بچ جائے اس کو معافات حاصل ہے۔ کیا مطلب کہ نہ تم ستاؤ نہ ستائے جاؤ، نہ ظالم بنو نہ مظلوم۔ اس حدیث کی یہ شرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ بس آج کا یہ سبق ہے۔ کل برطانیہ سے ہمارے کچھ مہمان آرہے ہیں، مولانا ایوب سورتی سابق