آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہجرت نہ کرنی پڑتی لیکن باوجود قدرتِ کاملہ کے پھر بھی ہجرت کو فرض فرمایا اور ان کی موت فرشتوں سے نہیں صحابہ کی تلواروں سے ہوئی تاکہ میرے صحابہ کو قتلِ کفار کا شرف ملے، عزرائیل علیہ السلام ہی کو ساری فضیلت نہ مل جائے، اور اگر اﷲ مکہ ہی میں کافروں کو مار دیتا اور آپ وطن سے بے وطن نہ ہوتے تو اہلِ مدینہ جو آپ پر جان چھڑک رہے تھے ان کو عشق ومحبت کا حصہ کیسے ملتا؟ بقول مولانا منصور الحق ناصر کے ؎ اُن سے محبوبِ حقیقی کا پتا ملتا ہے شیخ پر جان چھڑکنا یوں ہی بے کار نہیں تو اہلِ مدینہ نے اپنی جان، مال، آبرو اور محبت پیش کی، اﷲ تعالیٰ نے عشق کی کرامت پیش کی کہ جو لوگ میرے پیاروں کو پیار کرتے ہیں تو ہم اپنے پیاروں کو اُن پیار کرنے والوں کو دے دیتے ہیں، لہٰذا اہلِ مکہ اس قابل نہیں کہ ہمارا پیارا ان کے ساتھ رہے، کیوں کہ انہوں نے ہماری نعمت کی ناقدری کی ہے، ناقدروں سے اﷲ تعالیٰ نعمت چھین لیتا ہے لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ جو قدر دانی کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ صرف نعمت میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ ازدیادِ نعمت کے ساتھ ساتھ وہ محبوب بھی ان کو دے دیتا ہے، لہٰذا سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اہلِ مدینہ کو دے دیا۔اللہ والوں کی قدر دانی پر ایک علمِ عظیم اس لیے میں نے بہت پہلے افریقہ ڈربن میں مولانا یونس پٹیل کی مسجد میں کہا تھا کہ اﷲ والوں کی قدر کر لو، ورنہ تم سے چھین کر اﷲ والوں کو اﷲ ان بستیوں میں بھیج دے گا جو قدر دان ہیں، اور اس کی دلیل میرے قلب میں یہی عطا ہوئی جو اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں بیان کی کہ اﷲ تعالیٰ نے باوجود کعبہ شریف، زمزم اور ایک لاکھ ثواب کے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو اہلِ مکہ سے چھین لیا اور مدینے شریف کے صحابہ کو دے دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اسلام کمپیوٹرائز مذہب نہیں ہے کہ کھاتہ لے کے بیٹھوکہ یہاں ایک لاکھ کا ثواب ہے، جہاں اﷲ خوش ہیں ہماری جنت وہیں ہے، ہمارا ثواب وہیں ہے، وہیں ہمارا ایمان ہے، وہیں ہمارا اسلام ہے، وہیں ہمارا احسان ہے۔ ثواب کی کھاتا پیٹری کچھ نہیں ہے۔ اب اگر کوئی بے وقوف کہے کہ ہم نو تاریخ کو کعبہ شریف نہیں چھوڑیں گے، ملتزم پر لپٹے رہیں گے، ہم جنگل میں کیوں جائیں جہاں ہم کو کعبہ نہیں ملے گا۔ تو اس کا حج نہیں ہوگا، کیوں؟ اس لیے کہ اﷲ نے بتا دیا کہ آج کعبہ میں کعبہ والا نہیں ملے گا، آج اﷲ عرفات کے جنگل میں ملے گا، بادشاہ جہاں خیمہ لگا دے وہیں پر