آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ایمان و یقین کیسے حاصل ہوتا ہے؟ تو یہ ایمان ویقین اﷲ والوں کو نسبتِ احسانیہ سے ملتا ہے، یہ مقام عام ایمان اور اسلام سے نہیں ملتاجب تک کہ احسان نصیب نہ ہو۔ احسان کہتے ہیں کہ قلب میں ہر وقت اﷲ کی عظمتیں سامنے ہوں جیسے جنگل میں کسی سیاح کے سامنے شیر کھڑا ہو اور دنیا میں اوّل نمبر حسن میں پاس ہونے والی لڑکی بھی کھڑی ہو، تو کیا سیاح اس لڑکی کو دیکھ سکتا ہے جبکہ شیر بھی آنکھ سے آنکھ ملائے دیکھ رہا ہے اور حملے کے لیے مستعد ہے؟ جب شیر کی عظمت سے کوئی حسین لڑکی کو بھول سکتا ہے بلکہ اگر وہ لڑکی کہے بھی کہ مجھے کیوں نہیں دیکھتے تو وہ کہے گا کہ تجھے کیا دیکھوں، مجھے بھی تو کوئی دیکھ رہا ہے۔ اس پرمیرا شعر ہے ؎ میری نظر پہ ان کی نظر پاسباں رہی افسوس اس احساس سے کیوں بے خبر تھے ہم ہم کیسے دیکھیں جبکہ اﷲ تعالیٰ بھی ہم کو دیکھ رہا ہے کہ نالائق کہاں دیکھتا ہے۔اللہ کے شیروں کا کام تو یہ کیفیتِ احسانیہ جب قلب میں ہو، ہروقت عظمتِ الٰہیہ کا غلبہ ہو تب آدمی گناہ سے بچتا ہے۔یہ مٹی کے ڈھیلوں کاکام نہیں ہے، یہ اﷲ کے شیروں کا کام ہے۔حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم اﷲ کی دوستی اور استقامت علی التقویٰ نہیں پاسکتے جب تک کہ شیرانہ زندگی نہ ہو وَلَا یَرُوْغُ رَوْغَانَ الثَّعَالِبِلومڑیوں کی چال چلو گے تو اﷲ کو نہیں پاؤ گے، لہٰذا ہمت کرلو کہ جان دے دیں گے مگر کسی کالی اور گوری کو نہیں دیکھیں گے، ایئر ہوسٹس ہو یا کوئی حسین ہو۔ناراضگیِ مولیٰ کو دوزخ سے زیادہ تکلیف دہ سمجھنا صدیقیت کا اعلیٰ مقام ہے تو صدیق کی یہ تعریف میرے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ جو ہم کو ایک لمحہ ناراض نہ کرتا ہو اور ہم کو ناخوش کر کے حرام خوشیوں کو استیراد اور درآمد اور امپورٹ نہ کرتا ہو، تین زبانوں میں میں نے ترجمہ کیا ہے، استیراد عربی، درآمد فارسی اور امپورٹ انگریزی لفظ ہے۔ اﷲ سے ایسا تعلق ہوجائے کہ اپنے مولیٰ کو ناراض کرنے سے موت بہتر سمجھے، دوزخ کی تکلیف سے زیادہ اپنے مالک کو ناخوش کرنا سمجھتا ہو، کیوں کہ حدیث سے اس کا استدلال ہوتا ہے: