آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
روٹی کھلا کے اور ہاتھ پیر دبا کے نہیں پائے گا، ہاں اگر کسی اﷲ والے کے پیٹ میں روٹی ڈال دے، کسی اﷲ والے کا ہاتھ پیر دبا دے تو سمجھ لے کہ تو نے مولیٰ ہی کی خدمت کی ہے۔ میں اس سے کہتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روغنی روٹی کھلا دو، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پیر دباؤ، جہاں وہ بیٹھیں وہاں صفائی کرو تو اﷲ والوں کی خدمت کرنااﷲ تعالیٰ ہی کی خدمت ہے ؎ دیدنِ او دیدنِ خالق شدہ ست خدمتِ او خدمتِ حق کردہ ست اﷲ والوں کو دیکھنا اﷲ تعالیٰ ہی کو دیکھنا ہے اور اﷲ والوں کی خدمت کرنا اﷲ تعالیٰ ہی کی خدمت ہے، کیوں کہ جو محبت اﷲ کے لیے ہوتی ہے وہ اﷲ کے سا تھ ہوتی ہے۔ یہ حکیم الامت کا جملہ ہے، حضرت فرماتے ہیں کہ جو محبت لِلہ ہوتی ہے وہ باﷲ ہوتی ہے، جو محبت اﷲ کے لیے ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ اس کو اپنی ہی محبت کے کھاتے میں لکھتے ہیں۔اس بات کو حضرت حکیم الامت نے ایسے سمجھایا کہ اگر کسی کی اولاد کی خدمت کرو، اس سے محبت کرو تو باپ اس کو اپنی ہی محبت کے کھاتے میں لکھتا ہے تو جو اﷲ والے ہیں، اﷲ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں ان کی محبت کو اﷲ تعالیٰ اپنے کھاتے میں لکھتا ہے۔صدقۂ نافلہ بھی محبت کا ایک حق ہے محبت سے متعلق تین باتیں ہوگئیں۔ اب ایک بات اور عرض کرتا ہوں کہ خالی فرض ادا کرنے سے کوئی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا، ایک آدمی خالی فرض پڑھے سنتیں نفل وغیرہ نہ پڑھے تو ولی اﷲ نہیں ہو سکتا، لہٰذا اﷲ کے راستے میں نفلی عبادات بھی کرو، صدقۂ نافلہ سے دو عظیم فائدے ہوتے ہیں۔ حدیث شریف ہے: اِنَّ الصَّدَقَۃَ لَتُطْفِیُٔ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْ فَعُ عَنْ مِّیْتَۃِ السُّوْءِ؎ صدقہ اﷲکا غصہ ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت سے بچاتا ہے۔ اسی لیے حدیث شریف میں ہے کہ جب بیماری آئے تو فوراً صدقہ کرو، بیماری سے شفا حاصل کرنے کے لیے نفلی صدقہ دو، مسجد کی تعمیر کے لیے، بزرگانِ دین کی خدمت میں، مدرسے کی خدمت میں، کہیں سیلاب وغیرہ آجائے، غرض جہاں کہیں مسلمان تکلیف میں ہوں تو ایسے موقع پر اﷲ کے نام پر نفلی خرچ کرو کیوں کہ مسجد اور دارالعلوم زکوٰۃ سے نہیں بن سکتا، لہٰذا نفلی ------------------------------