آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ میں تین برس رہا ہوں، مولانا شاہ محمد احمد صاحب مولانا قمر الزمان صاحب دامت برکاتہم کے بھی شیخ تھے اور میرے بھی شیخ تھے۔ بتاؤ! بزرگوں کی تین برس کی میری صحبت رائیگاں جائے گی ؎ آہ جائے گی نہ میری رائیگاں تجھ سے ہے فریاد اے ربِّ جہاںنسبت منتقل ہونے کے ذرائع تو الحمدﷲ حضرت والا کے ساتھ میں تین سال رہا اور بزرگوں کی نسبت منتقل ہونے کے بہت سے ذرائع اور وسائل ہوتے ہیں، بعض بزرگوں کو اﷲ نے یہ شان دی کہ اگر ان کے ساتھ کوئی کھانا کھالیتا تھا تو ولی اﷲ ہوجاتا تھا، بعض بزرگوں کو درد بھرے اشعار دیے کہ ان کے اشعار سن کر لوگ ولی اﷲ ہوجاتے ہیں، بعضوں کے لباس میں اﷲ نے اثر دیا کہ اگر کسی کو کرتا پہنا دیا تو وہ ولی اﷲ ہوگیا، بعضوں کے لقمے میں اثر ہوتا ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے کسی کو لقمہ دےدیا تو وہ ولی اﷲ ہوگیا اور بعضوں کی تقریر میں اﷲ یہ اثر دیتا ہے کہ تقریر سے ان کی نسبت منتقل ہوتی ہے۔ اس لیے اس مجلس کو محترم، مکرم، معظم اور مغتنم سمجھ لو ؎ غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو مبادا پھر یہ وقت آئے نہ آئے تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے فرمایا کہ اے علماءِ ندوہ! اﷲ والوں کی نظر کو تلاش کرو، ان کے پاس جاؤ، محض خط و کتابت سے نظر نہیں ملتی، نظر تو نظر کے سامنے بیٹھنے سے ملتی ہے۔ اگر کوئی اُس زمانے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک لاکھ خط لکھتا رہتا تو بھی صحابی نہیں ہوسکتا تھا، صحابی بننے کے لیے تو سامنے آنا پڑے گا، چاہے نبی کی نظر صحابی پر پڑجائے یا صحابی کی نظر نبی پر پڑ جائے۔ حضرت عبد اﷲ ابنِ اُمِ مکتوم نابینا تھے، وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھنے سے معذور تھے، مگر حضور نے ان کو دیکھ لیا تو وہ بھی صحابی ہوگئے۔ تو اﷲ کا شکر ہے کہ بزرگوں کی نظر اختر پر بہت پڑی ہے۔ تین سال مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں پھر سترہ سال شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ کی پھر سالہا سال سے مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کی نظر میں ہوں۔ میں جب ہندوستان جاتا ہوں یا حضرت کراچی تشریف لاتے ہیں.تو میں حضرت کے ساتھ ساتھ رہتا ہوں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اپنے شیخ کو چھوڑا ہو، میں نے ہمیشہ اپنے شیخ کے سفر میں ساتھ دیا ہے۔