آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہمارے اندر وہ تین علامات ہیں تو سمجھ لو کہ اﷲ کا پیار اور ہدایت ہم کو نصیب ہے اور اگر یہ علامات نہیں ہیں تو سمجھ لو کہ ہم نام کے تو مسلمان ہیں مگر اﷲ کے پیار کے قابل نہیں ہیں، ہدایت کا نور ہمارے دل میں نہیں ہے۔ہدایت کی پہلی علامت پہلی علامت کیا ہے؟اَلتَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِدنیا دھوکے کا گھر ہے، اس سے ہوشیار رہتا ہے، اس میں دل نہیں لگاتا ؎ بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں دنیا میں رہتا ہے لیکن دنیا کے عشق و محبت پر اﷲ کی محبت کو ہر معاملے میں غالب رکھتا ہے، اگر انچاس فیصد دنیا کی محبت ہے تو اکیاون فیصد اﷲ کی محبت کو غالب رکھتا ہے۔ الٰہ آباد میں ایک شخص گھی کا ہول سیل ڈیلر تھا، ایک ہندو چالیس ہزار روپے کا گھی خریدنے آیا، اتنے میں اذان کی آواز آئی، اس نے چالیس ہزار روپیہ ہندو کو واپس کردیا کہ ہم پہلے نماز پڑھیں گے پھر گھی بیچیں گے، اگر انتظار نہیں کرسکتے تو کہیں اور سے گھی خرید لو۔ جب وہ نماز پڑھ کے آیا تو ہندو بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے پوچھا کہ تم گئے کیوں نہیں؟ جبکہ سامنے اور بھی دکانیں ہیں وہاں سے خرید لیتے۔ تو اس نے کہا کہ مجھے تو آپ ہی سے خریدنا ہے کہ جب آپ کے دل میں خدا کا اتنا ڈر ہے کہ جماعت کی نماز آپ نے نہیں چھوڑی اور میرا چالیس ہزار روپیہ واپس کردیا، تو کیسے ڈنڈی مارو گے؟ آپ کم نہیں تولو گے، آپ خدا سے ڈرتے ہو، ہم آپ ہی سے خریدیں گے۔ اﷲ والا بن کے تو دیکھو، دنیا کم نہیں ہوتی بلکہ آپ پہلے سے زیادہ مال دار رہو گے ان شاء اﷲ۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ، صاحبِ قونیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ نے دنیا کو دھوکے کا گھر کیوں بتایا ہے؟ جس نے دنیا پیدا کی وہی اﷲ دنیا کو دھوکے کا گھر قرار دے رہا ہے ؎ زاں لقب شد خاک را دارالغرور کو کشد پارا سپس یوم العبور اﷲ نے دنیا کو دارالغرور یعنی دھوکے کا گھر کیوں فرمایا؟ کیوں کہ جب انسان کا جنازہ اترتا ہے تو دنیا دور سے سلام کرتی ہے۔ بیوی کہتی ہے کہ ہم قبر میں نہیں جائیں گے، بچے کہتے ہیں کہ ہم قبر میں نہیں جائیں گے، مرسڈیز موٹر کہتی ہے کہ ہم قبر میں نہیں جائیں گے، کاروبار جمبو ہو یا بمبو ہو یا لمبو ہو، سب کہتے ہیں کہ ہم قبر میں