آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
۲۵؍ جمادی الثانی ۱۴۱۹ ھ مطابق ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء، بروز اتوار،بعد فجر بوقت سیر، ملاویسب سے حسین کلام ارشاد فرمایا کہ قابلیت اور ہے، محنتِ علمیہ اور ہے، کثرتِ علم اور ہے مگر عطائے رحمتِ حق کا الگ مقام ہے۔ اﷲ کی رحمت سے جو علم عطا ہوتا ہے وہ علم اﷲ تعالیٰ کی منزل تک پہنچاتا ہے، قربِ منزل عطا ہوتا ہے۔ آپ کسی حدیث کو تمام علماء کائنات سے پڑھیے اس کے بعد پھر اختر کی تقریر کو بھی مستحضر رکھیے پھر سوچئے کہ اختر پر اﷲ تعالیٰ کا کیا فضل ہے، اس دور میں، ا س زمان میں، اس مکان میں اور اس دکان میں۔ اﷲ کے نزدیک پوری کائنات میں سب سے احسن اور محبوب کلام وہ ہے کہ کوئی بندہ کسی بندے کو اﷲ کی طرف بلا رہا ہو: وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا ؎ اس سے بڑھ کر پوری کائنات میں کسی کا قول حسین نہیں ہے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات سب سے قیمتی ہے اور یہ بندہ بندوں کو قیمتی ذات کی طرف بلارہا ہے۔ اس لیے اس کی بات قیمتی ہوگئی۔ قیمتی پر جو چیز فدا ہوتی ہے وہ بھی قیمتی ہوجاتی ہے اگرچہ بالکل معمولی ہو،یہاں تک کہ اگر بادشاہ ایک رومال میں ناک صاف کر لے تو وہ ناک آلودہ رومال بڑے بڑے فالودہ سے افضل ہوجاتا ہے، اس کو لوگ خرید لیتے ہیں اور بڑی قدر کرتے ہیں کہ بادشاہ نے اس کو استعمال کیا ہے، اور بادشاہ کی مثال اگر سمجھ میں نہ آتی ہو تو سمجھ لو لیڈی ڈیانا نے ناک صاف کی ہے یا لیلیٰ نے، تو مجنوں سے پوچھو وہ کہے گا کہ آہ! اس سے میری لیلیٰ نے ناک صاف کی ہے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے داعی الی اﷲ کے لیے عملِ صالح کی قید لگائی اور اسی لیے لگائی کہ اس کی برکت سے اس کی تقریر میں، تحریر میں برکت آتی ہے۔ جب داعی الی اﷲ اچھا عمل نہیں کرے گا تو اس کے لیے دعوت الی اﷲ جائز تو ہے، ایک بے نمازی بھی دوسروں سے کہہ سکتا ہے کہ بھائیو! نماز پڑھا کرو، لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ خود بے نمازی ہے تو اس کے قول میں برکت نہیں ہوگی، ایک شخص بدنظری کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بھئی بدنظری مت کیا کرو تو اس کا یہ کہنا جائز تو ہے مگر جب آدمی دیکھتا ہے کہ یہ بھی ایئرہوسٹس کو تاک رہا ہےتو اس کے قول میں برکت نہیں رہتی۔ ------------------------------