آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
جب میں شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں گیا تو وہ تمام لوگ جنہوں نے مجھ کو طب پڑھائی تھی، سب سے پہلے انہوں نے تنقید کی کہ حکیم ہو کر پیری مریدی میں پڑ گئے، دواخانہ کھولنا چاہیے، طب کو ترقی دینی چاہیے،یہ کس چکر میں پھنس گئے؟ اور عربی پڑھانے والے اساتذہ کہتے تھے کہ اس کو کیا علم آئے گا؟ کوئی پوچھے گا بھی نہیں، کیوں کہ یہ تو پیری مریدی کے چکر میں ہے، جب دیکھو اپنے شیخ کے یہاں ہر جمعرات کی شام کو بستر سر پر رکھا اور شیخ کی خدمت میں پہنچ گئے، کیوں کہ وہ دیہات تھا اور سردیوں میں میرے شیخ کے یہاں بستر نہیں ملتا تھا، تو بستر لے کر گدّا رضائی سر پر لادا اور پانچ میل پیدل شیخ کے یہاں جمعرات کو گئے، شبِ جمعہ رہے،دن کو حضرت کی خدمت کی، ان کو وضو کرایا، نہانے کے لیے پانی گرم کیا اور جمعہ میں شیخ کی تقریر سنی، پھر رات کو رہے اور سنیچر کی صبح کو مدرسے پہنچ گئے۔ تو اساتذہ کہتے تھے کہ تمہاری استعداد کمزور ہوجائے گی، لیکن جب مضمون دیا گیا کہ سب لوگ عربی میں مضمون لکھیں تو اس سال میں شرح وقایہ پڑھتا تھا، میں نے پینتیس صفحوں میں عربی کا مضمون لکھا، تو بخاری شریف والوں کے مضمون سے میرے مضمون کے اعلیٰ نمبر آئے، تب سب نے کہا کہ ارے بھئی! اس کو بدھو مت سمجھو، اس کو شیخ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی کرامت حاصل ہے۔حضرتِ والا کا ادبِ اساتذہ اور اُس کے ثمرات اور میری مثنوی کی شرح اور دوسری کتابیں پڑھ کر مجھے فارسی پڑھانے والے استاد بھی کہنے لگے کہ کیا تم نے کہیں اور فارسی پڑھی ہے؟ کیوں کہ مثنوی کی شرح آسان نہیں ہے۔ تو میں نے عرض کیا کہ حضرت جو آپ سے پڑھا تھا اتنا ہی پڑھا ہے، اور چوں کہ وہ تیز بولتے تھے تو سمجھ میں آتا نہیں تھا اور طلبہ شکایت کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ شکایت مت کرو، استاد کا ادب کرو، جو ملنا ہے اسی میں مل جائے گا، کیوں کہ استاد الحمد ﷲ تہجد گزار اور حکیم الامت تھانوی سے بیعت تھے۔ تو ایک صاحبِ نسبت کی شکایت نہ کرو کہ یہ تیز بولتے ہیں، اس لیے میں نے کہا کہ جیسے بولیں بولنے دو بعد میں آپس میں تکرار کرکے سمجھ لو، حاشیہ دیکھ لو۔ اﷲ کا شکر ہے کہ میری فارسی میں اﷲ نے وہ برکت ڈالی کہ ایران کے علامہ زاہد نیشاپوری جن کی مادری زبان فارسی ہے،انہوں نے مجھے لکھا کہ’’ ہر کہ مثنوی اختر را بخواند او ر امثنوی مولانا روم پندارد‘‘ یعنی جو اختر کی مثنوی پڑھتا ہے وہ اسے مولانا روم کی مثنوی سمجھتاہے، او رسنیے ’’و ترا مولانا جلال الدین رومی ثانوی می فہمیدم‘‘ ہم آپ کو اس زمانے کا مولانا رومی ثانی سمجھتے ہیں۔ میری مثنوی کے شروع میں یہ چھپاہوا ہے۔