آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
فارغ از مردارم و کرگس نیم اے دنیا والو! جلال الدین مردہ کھانے سے فارغ ہوچکا ہے یعنی مرنے والوں سے دل لگانے سے نجات پاچکا ہے، کتنی ہی حسین شکل ہو اب جلال الدین خاطر میں بھی نہیں لاتا۔عشقِ مجازی کا انجام صرف ذلت، رسوائی اور پچھتاوا ہے ارے ظالمو، غدّارو اور بے وفاؤ اور نمک حسینوں کا چکھنے والو! اگر تم سچے وفادار عاشق ہوتے تو جب شکل بگڑ جاتی ہے اس وقت بھی وفاداری دِکھاتے، اس وقت کیوں گدھے کی طرح بھاگتے ہو؟ آہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ایک شخص کسی کے حسن پر پانچ سال تک خط لکھتا رہا کہ میں بے قرار ہوں، رات بھر تارے گنتا ہوں، نیند نہیں آرہی، تڑپتا ہوں تو اس کے معشوق نے کہا کہ تم کیوں تڑپتے ہو، آجاؤ مجھے دیکھ لو، میری زیارت کر لو، اس نے کہیں سے چندہ کیا، کیوں کہ کرایہ نہیں تھا غریب آدمی تھا جب وہاں پہنچا تو مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پانچ سال میں اس کی شکل بالکل بگڑ گئی تھی، پانچ سال میں تو حکومت بدل جاتی ہے، پانچ سال بعد الیکشن ہوتا ہے یا نہیں؟ تو چہرے کا بھی الیکشن ہوتا ہے تو اس کی شکل بالکل بدل گئی تھی اور اس کے لبِ نازک جس کو چومنے اور چوسنے کے لیے پریشان تھا وہاں بڑی بڑی مونچھیں نکلی ہوئی تھیں، اب جب شکل دیکھی تو سر جھکا لیا کہ یہ میں حسن کے قبرستان میں کہاں آگیا؟ اس نے سوچا کہ اب کسی طرح سے آبرو بچاؤ تو وہ اپنے پرانے خط پڑھ پڑھ کر سنانے لگا کہ میں نے آپ کو فلاں جنگل میں گیارہ جنوری کو یہ خط لکھا تھا اور فروری میں آپ کو یہ خط لکھا تو معشوق سمجھ گیا کہ اب اس کو میری شکل مزے دار نہیں لگ رہی تو اس نے ایک طمانچہ مارا۔ کہا کہ خط تو آدھی ملاقات ہے، اب آپ میرے پاس آئے ہو تو پوری ملاقات میں مجھے کیوں نہیں دیکھتے ہو؟ پوری ملاقات پر نصف ملاقات کو ترجیح دے رہے ہو یعنی خط پڑھ پڑھ کر سنارہے ہو۔ ایک صاحب ایسے ہی اظہارِ محبت کیا کرتے تھے، لیکن جب معشوق کی شکل بگڑ گئی تو اس سے منہ پھیرنے لگے تب معشوق نے آکر ہر روز ستانا شروع کیا پھر عاشق صاحب یہ شعر پڑھتے ؎ وہ اکثر آکے مجھ سے پوچھتے ہیں میاں کیا حال ہے دردِ جگر کا ارے ظالمو! اﷲ کے نام پر مرنا سیکھو ورنہ جس دن جنازہ دفن ہوگا تب تمہیں جوتے پڑیں گے پھر تم خودکو جوتے لگانے کے قابل سمجھو گے کہ میں نے کہاں غیر اﷲ پر جان دی؟ اگر یہ حسن وعشق اچھی چیز ہے تو جب