آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے اس شعر کا حاصل یہ ہے کہ ایک عاشق نے جب یہ شعر پڑھا تو معشوق نے پوچھا کہ آپ ہی بتائیے کہ اس درد کیدوا کیا ہے؟ تو عاشق صاحب شرماگئے اور کہنے لگے کہ وہ میں نہیں بتا سکتا کیوں کہ وہ پیشاب اور پاخانے کے مقامات ہیں۔ اور ؎ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہےعشقِ مجازی کی انتہا پچھتاواہے ایک صاحب مجھ سے بیعت ہوئے، پورے ملک میں جدھر وہ مجھے پہنچانے جاتے تو لوگ مجھ سے کم مصافحہ کرتے ان کی طرف زیادہ جاتے کیوں کہ وہ ساری زندگی فلم ایکٹر رہے تو اس نے کہا کہ جن عورتوں کے ساتھ ہم نے گانا گایا تھا اور جن لونڈیوں کے ساتھ معاشقہ کیا تھا، وہ سب بے وفا اور دھوکا باز تھیں، کبھی میرے ساتھ تو کبھی دوسروں کے پہلو میں۔ آج وہ نانی اور دادی بنی ہوئی ہیں اورہم بھی بڈھے ہوگئے، تو اس نے کہا کہ اب روتا ہوں کہ کہاں مرے، کن پر مرے، سڑی گلی لاشوں پر۔ وہ نوجوان لڑکیاں اور وہ فلم بنانے والی اب کوئی نانی ہے، کوئی دادی ہے، کسی کے منہ میں دانت نہیں ہے، کسی کی گردن کانپ رہی ہے۔اللہ والے عشقِ لیلیٰ کو عشقِ مولیٰ سے تبدیل کر دیتے ہیں سوائے اولیاء اﷲ کی صحبت کے اس مرض سے کوئی نہیں بچتا، جو عشقِ لیلیٰ کو عشقِ مولیٰ میں تبدیل کردے، یہ اہل اﷲ ہی کا مقام ہے، اہل اﷲ کی برکت سے بڑے بڑے رومانٹک والے مولیٰ والے ہوگئے ورنہ وہ ساری زندگی لیلاؤں کے اِزار بند ہی کھولتے رہے اور گالیاں بھی کھاتے رہے،کیوں کہ عشق میں اعتدال نہیں ہوتا کوئی راضی ہواتو ٹھیک ورنہ زبردستی زِنا کرتے ہیں اور پھر جوتے اور گالیاں کھاتے ہیں اور ایک دوسرے کی نظر میں ہمیشہ ذلیل رہتے ہیں عزت بھی نہیں ملتی، اور مولیٰ والی محبت میں ایک دوسرے کی کیسی عزت ہوتی ہے، ان کی جنت کا مزہ یہیں سے شروع ہوجاتا ہے، اور عاشقِ مجاز کو دوزخ کا عذاب دنیا ہی سے شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ بعض وقت ایک لونڈیا سے عشق لڑایا اس کو دوسرا عاشق لے گیا اور وہ اس کی یاد