آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
حوروں سے لپٹ جاؤ، بلکہ فرمایا فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ پہلے میرے عاشقوں سے ملو جو خالقِ جنت کے حامل ہیں اور ثانوی درجے میں جنت کی نعمت کو استعمال کرو،کیوں کہ جنت حاملِ نعمت ہے اوراہل اﷲ حاملِ منعم ہیں، وہ نعمت دینے والے کو اپنے دل میں رکھتے ہیں اورنعمت دینے والا افضل ہوتا ہے نعمتوں سے۔ بتائیے!یہ شرح ضروری تھی یا نہیں؟ تو حقیقت میں یہ شیخ میں اور جنت میں تقابل نہیں ہے، یہ اﷲ تعالیٰ میں اور جنت میں تقابل ہے کیوں کہ انسان پیر بناتا ہے اﷲ کے لیے،تو پیر سے اﷲ مقصود ہوتا ہے پیر سے پیرمقصود نہیں ہوتا۔عملیات میں مشغولی کا نقصان اس لیے اگر معلوم ہوجائے کہ یہ پیر عملیات کرتا ہے، عامل ہے تو بزرگوں نے فرمایا ہے کہ عامل صاحبِ نسبت نہیں ہوسکتا۔ مولانا گنگوہی، حکیم الامت اور سب کا یہی قول ہے، کیوں کہ عامل توجہ ڈالتاہے غیر اﷲ کی طرف اور غیر اﷲ کی طرف توجہ کرنے سے نسبت قائم نہیں رہتی۔ لیکن وہ عملیات جس میں چلّے وغیرہ نہ کھینچنے ہوں جیسے قرآن پاک کی آیات وغیرہ سے دم کردیا جو بہشتی زیور کے حصہ نمبر ۹ میں ہیں وہ کرسکتے ہیں۔ مگر چلّہ کشی کرنا اور جن کو قبضہ میں کرنا یہ سب چکر بازیاں ہیں اور ان کا انجام اکثر جھوٹ نکلتا ہے۔ایک عامل کی چکر بازی کا واقعہ میرے پاس نواب قیصر ایک بہت بڑے معزز آدمی کو لائے۔ ا س نے کہا کہ مجھے کراچی میں ایک عامل نے کہا ہے کہ تم پر بہت بڑا جادو کیا گیا ہے اس لیے تمہارا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ پہلے دن جب عامل کے پاس گئے تھے تو آپ سے اس نے کچھ سوال کیا تھا؟ اس نے کہا کہ ہاں پوچھا تھا کہ کیا پرابلم ہے؟ میں نے کہا کہ میرا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے، پھر ا س نے پوچھا کہ تمہاری اماں کا کیا نام ہے؟ میں نے اماں کا نام بتا دیا، پھر اس نے کہا کہ تم کو پانچ سو روپیہ نقد دینا پڑے گا، ہم تمہارا جادو تلاش کرلیں گے، اب تم فلاں دن آنا۔ اس نے پانچ سو روپیہ لے لیا اور کراچی سے پچاس ساٹھ میل دور ٹھٹھہ ایک جگہ ہے وہاں اس نے گیارہ سوئی لے کر ان پر خون لگایا اور ایک کپڑے میں یہ سوئیاں لگادیں اور ایک پرانا کاغذ تلاش کرکے اس پر تین دفعہ لکھ دیا کاروبار ٹھپ، کا روبار ٹھپ، کاروبار ٹھپ اور ان صاحب کا اور ان کی ماں کا نام بھی لکھ دیا اور کسی قبر میں دبا دیا۔ اب اس کے بعد وہ مقرر دن ان صاحب کو ٹھٹھہ لے گیا اور اِدھر اُدھر تین چار قبریں کھودیں، بعد