آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
طفلی گئی علامت پیری ہوئی عیاں ہم منتظر ہی رہ گئے عہدِ شباب کے اور ان حسینوں سے قلب و نظر بچانے پر میرا شعر ہے ؎ ان حسینوں سے دل بچانے میں ہم نے غم بھی بہت اُٹھائے ہیں مگر اس شعر کو بدل کر ذرا چٹ پٹا کر دیا ؎ ان حسینوں سے دُم چھڑانے میں ہم نے جھٹکے ہزار کھائے ہیں مضمون وہی ہے مگر یہ زیادہ چٹ پٹا ہے، رومانٹک کو میں رومانٹک سے مارتا ہوں جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ میرے علاج کا طریقہ آج کل یہی ہے کہ میں رومانٹک کو رومانٹک سے مار تا ہوں اور ڈینٹ فار اسٹک ہونےسے اور آؤٹ آف اسٹاک ہونے سے وہ بچ جاتا ہے، اس کی جوانی بھی مضبوط رہتی ہے اور ولایت اور تقویٰ کے بھی اعلیٰ درجے پر پہنچتا ہے اور وہ جوان زندگی بھر میرا شکریہ ادا کرتے ہیں۔اللہ والوں کی غلامی کا ثمرہ میں نے پشاور میڈیکل کالج میں تقریر کی، الحمدﷲ! میڈیکل کالج کے اکثر اسٹوڈنٹ فائنل کے تھے جو ڈاکٹر ہوچکے تھے، میں نے کہا کہ تم لوگ ٹیڈی کے ساتھ اسٹیڈی کرتے ہو حالاں کہ مخلوط تعلیم حرام ہے اور جب ہر وقت ٹیڈی کے ساتھ اسٹیڈی کرو گے تو تمہارا مزاج شہوت سے گرم ہوجائے گا اور تمہاری منی پتلی ہوجائے گی اور تم بیویوں کا حق ادا نہیں کرسکو گے، منی پتلی ہوجانے کی وجہ سے تم جلد ڈسچارج ہوجاؤ گے اور بیوی پر انچارج نہیں رہو گے۔ تو میڈیکل کالج کے لڑکوں نے میرا پتا لکھا اور پروفیسر نے کہا کہ اس کالج کی تاریخ میں آج تک کسی اسٹوڈنٹ نے اتنی محبت اور غور سے علماء دین کی تقریر نہیں سنی، بدتمیز لڑکے ہیں، استادوں کے سامنے میز پر مکے مارتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ اﷲ والوں کی غلامی کا صدقہ ہے، میں دردِ دل سے درد بھرا مضمون پیش کرتا ہوں۔ مانچسٹر میں جب میرا بیان ہوا تو وہاں کے امام نے کہا کہ میں نے ایسا درد بھرا مضمون، درد بھری تقریر کبھی نہیں سنی، اسی وقت میرا ایک شعر ہوا۔ اب میں آپ کو میڈ اِن مانچسٹر شعر سنا رہا ہوں ؎