آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ اﷲ کو خوش کرنے کے لیے نظر بچا لو تو سمجھ لو جنت سے افضل چیز پاگئے کیوں کہ اﷲ کی رضا جنت سے افضل ہے،اگر افضل نہ ہوتی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اسے جنت سے مقدم نہ فرماتے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَجب اﷲ کو خوش کرنے کے لیے نظر بچا لو تو شکر ادا کرو کہ آج ہم جنت سے افضل چیز پاگئے یعنی اپنے مالک کو ہم نے خوش کرلیا وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِاور جب گناہ سے بچنے کی توفیق ہوجائے تو سمجھ لو اب دوزخ سے بھی زیادہ خطرناک چیز سے ہم بچ گئے اور اﷲ تعالیٰ کو ہم نے ناراض نہیں کیا۔ مالک کو ناراض نہ کرنے کا مطلب ہے کہ گویا آپ دوزخ کی تکلیف اور مصیبت سے بھی بچ گئے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہر سیکنڈ اپنے قلب و جاں کو اس طرح سے چپکا کے رکھو کہ سارا عالم، وزارتِ عظمیٰ، سلاطین کے تخت و تاج، حسینوں کا نمک اور ایک اعشاریہ حسن بھی آپ کو الگ نہ کرسکے، اﷲ سے اسی چپکنے اور چمٹنے کا نام ولایتِ صدیقیت ہے۔ یہ تعریف میرے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ اگر آج علامہ آلوسی باحیات ہوتے تو روح المعانی میں چوتھی تعریف میری لگا دیتے۔صحبتِ اہل اللہ کی فضیلت اور اس کی ایک وجہ ستّر سالہ زندگی کا نچوڑ پیش کرتا ہوں کہ ایک لاکھ سال کی عبادت سے افضل ہے کہ کسی صاحبِ نسبت کے پاس بیٹھو، اور اس کی وجہ مجھے رسٹن برگ میں سمجھ میں آئی۔ لَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِمیرا بندہ میرا مقرب ہوتا ہے تو میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں وہ میری آنکھ سے دیکھتا ہے، تو اﷲ والوں کی نظر جس پر پڑے گی تو گویا کہ وہ اﷲتعالیٰ کی نظر ہے، لفظ’’ گویا‘‘یاد رکھنا ورنہ فتویٰ دے دو گے۔ آہ! کیا کہیں بس جگر صاحب پر ایک نظر حضرت حکیم الامت کی پڑی، جگر صاحب نے شراب چھوڑ دی، داڑھی رکھ لی، حج کرآئے۔ اور جب داڑھی رکھ لی تو بمبئی میں اپنا یہ شعر پڑھا ؎ چلو دیکھ آئیں تما شا جگرؔ کا سنا ہے وہ کافر مسلمان ہوگا اپنی داڑھی کو دیکھ کر یہ شعر بنایا، یہاں کافر بمعنیٰ محبوب کے ہے، یہ اصطلاحِ شاعری ہے، ہر فن کو اس کی اصطلاح سے سمجھنا چاہیے، کہتے ہیں نا کہ یہ بڑا کافر ہے یعنی بہت ظالم ہے، جس کا حسن و نمک بہت زیادہ ہوتا ہے اس کو شاعر لوگ کافر کہتے ہیں۔