آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اے اللہ! جب آپ میرے خریدار ہیں کیوں کہ آپ نے فرمایا اِنَّ اللہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ؎ ہماری جانوں کو جب آپ نے خرید لیا ہے، جب آپ میرے خریدار ہیں تو اے جانِ عالم! اے عالم کی روح! آپ کی آنکھ کی ایک نوکِ پلک کے عوض میں اپنا جگر فروخت کرتا ہوں یعنی آپ کی تجلیاتِ خاصہ کی ایک جھلک کے عوض اپنا قلب و جگر آپ پر قربان کرتا ہوں ؎ بہ تیغِ ادائے تو سر می فروشم میں آپ کی ہر ادائے خواجگی اور عطائے خواجگی پر اپنا سر بیچتا ہوں، آپ کی ہر ادائے تربیت پر اپنا سرِ بندگی قربان کرتا ہوں ؎ جہاں وہ پاؤں رکھتا ہے وہاں پر سر برستے ہیں پاؤں سے مراد تجلّیاتِ قُرب ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو جسم سے پاک ہے یعنی ان کی تجلّیاتِ قُرب جہاں ہوتی ہیں وہاں ہزاروں سرقربان ہوجاتے ہیں، میرے ایک سر کی کیا حقیقت ہے۔ غرض اس کائنات میں ایسی روحیں بھی ہیں جو ہر لمحہ اللہ پر فدا ہوتی ہیں اور ایک لمحہ بھی اللہ سے غافل نہیں ہوتیں تو ایسی روح کے مزے کا کیا عالم ہوگا، وہ کیسے اللہ کا درد لیے خاموش رہے گا اور کیسے گھر پر بیٹھے گا،وہ اس درد کو سارے عالم میں لیے پھرتاہے۔ یہ اہل اللہ ایسے مجنوں ہیں جو مجنوں بناتے بھی ہیں اور ان کے جن احباب کو شیطان مرنے والوں کے عشق کا گوند لگا کر ان کی پرواز میں حائل ہورہا ہے تو اس گوند کو دور کرکے وہ ان کو اللہ کی طرف اُڑا دیتے ہیں۔ یہ خود بھی ہر وقت اللہ پر فدا ہیں اور ان کی صحبت میں اللہ نے یہ کرامت رکھی ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے بھی فانی لاشوں کے عشق سے آزاد ہوکر اللہ کے عاشق ہوجاتے ہیں۔ ۴؍رجب المرجب ۱۴۱۹ ھ مطابق۲۶؍اکتوبر ۱۹۹۸ء ،دوشنبہ، برمکان مفتی حسین بھیات صاحبتذکرۂ حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہی میرے مرشد اوّل حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے، جب ملاقات ہوتی تھی تو حضرت معانقے کے وقت یہ فرماتے تھے کہ میرا محبوب آیا ہے۔ ------------------------------