آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
۱۸؍رجب المرجب ۱۴۱۹ھ مطابق۸؍ نومبر ۱۹۹۸ء، بروز اتوار، برمکان مفتی حسین بھیات صاحبصدائے قلبِ شکستہ آج مجلس میں حضرت والا دامت برکاتہم کا مندرجہ ذیل کلام پڑھا گیا جس کی حضرت والا نے موقع بموقع تشریح بھی فرمائی ؎ سوائے تیرے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے یا رب جدھر بھی جاؤں کسے غمِ جان و دل سناؤں کسے میں زخمِ جگر دکھاؤں یہ کسی خشک آدمی کا شعر ہوسکتا ہے؟ کتنا ہی بڑا قابل ہو، شمس بازغہ اور صدرا پڑھاتا ہو، لیکن اگر دل پر چوٹ کھایا ہوا نہ ہو تو ایسا شعر کہہ ہی نہیں سکتا۔ میرے یہ اشعار میری تاریخِ حیات اور تاریخِ شکستِ قلب ہیں۔ میں جو ٹوٹا ہوا دل سینے میں رکھتا ہوں یہ اس کی تاریخ ہے۔ دیکھو میں نے ایک شعر کہا تھا ؎ دل چاہتا ہے کہ ایسی جگہ میں رہوں جہاں جیتا ہو کوئی درد بھرا دل لیے ہوئے بس یہ سب وہی داستانِ بے خودی ہے۔ میرے یہ اشعار ستّر سال کے بعد کے ہیں، جوانی کے نہیں ہیں۔ سن ستّر اور بہتّر کے درمیان میں یہ اشعار آدھی رات کے بعد ایسے ہوئے جیسے تیز بارش ہورہی ہو۔ اس عمر میں اﷲ نے مجھے یہ عزت بخشی۔ ان اشعار کا کافی سارا ذخیرہ چھپ گیا، لیکن ابھی اتنا ہی اور باقی ہے، ان شاء اﷲ سارا چھپ جائے گا۔اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ میری ایک آہ کو بھی اپنے کرم سے رائیگاں نہ ہونے دیجیے۔ تا ابد پائندہ درخشندہ تابندہ فرمائیے ۔تلقینِ احترازاز غلامیِ حسنِ مجاز یہ بت جو محتاج ہیں سراپا غلام ان کا بنوں تو کیوں کر غلام کا بھی غلام بن کر میں اپنی قیمت کو کیوں گھٹاؤں یعنی یہ جتنے حسین ہیں یہ بھی محتاج ہیں، کبھی کہتے ہیں مجھے قبض ہے، پیٹ سے لینڈ نہیں نکل رہا ہے، کبھی کھانسی ہے، کبھی بلغم ہے،کبھی پیٹ میں ہوا بھری ہوئی ہے اور مسلسل ہوا نکال رہے ہیں، کیا اس وقت