آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
معلوم ہوا کہ جب لڑکا بالغ ہوجا تا ہے تو بیوی کی دیکھ بھال کفالت وغیرہ کو مزے دارسمجھتا ہے، اس سے گھبراتا نہیں ہے، تو جب لیلاؤں کا یہ حال ہے تو جس کو دل میں مولیٰ مل جاتا ہے اور وہ اﷲ تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سب آسان ہوجاتا ہے اور صرف آسان نہیں مزے دار ہوجاتا ہے۔ بتاؤ! شادی کے بعد بیوی کے لیے گھڑی، لباس خریدتے ہوئے آپ کو مزہ آتا ہے یا بُرالگتا ہے کہ کیا مصیبت آگئی؟ بولو بھئی!آپ کو مزہ آتا ہے یا تکلیف ہوتی ہے؟ تو ایسے ہی جب مولیٰ پاجاؤ گے تو ان شاء اﷲ، اﷲ پر جان دے دو گے اور اﷲ والوں کے پیچھے پیچھے پھروگے کہ ہمیں سکھاؤ کہ اﷲ کیسے ملتا ہے؟ مولانا رومی سے پوچھو کہ وہ کیسے شمس الدین تبریزی کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے؟مولانا رومی معمولی آدمی نہیں ہیں،یہ شاہ خوارزم کے نواسہ ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں سے ہیں، پانچ سو بڑے بڑے علماء ان کے پیچھے چلتے تھے لیکن مولانا رومی اپنے پیر شمس الدین تبریزی رحمۃ اﷲ علیہ کی غلامی میں اﷲ کی محبت سیکھنے کے لیے ان کے ساتھ جنگل جنگل پھرتے تھے اور سب علماء سے کہہ دیا تھا کہ اب میرے ساتھ مت چلو، اب میں خود مرید ہوگیا ہوں، میں اپنے شیخ پر فدا ہونا چاہتا ہوں۔ مولانا رومی نے شمس الدین تبریزی کے فیضِ صحبت سے مثنوی کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار اور دیوانِ شمس تبریز کے پچاس ہزار اشعار کہے، جس جنگل میں انہوں نے یہ اشعار کہے اور جہاں وہ اﷲ کی یاد میں رویا کرتے تھے اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ آہ را جز آسماں ہمدم نبود راز را غیرِ خدا محرم نبود اے خدا! آپ کی محبت میں جو میں آہ کررہا ہوں ،رو رہا ہوں، تو میرے آنسوؤں کو اور میری آہ کو سوائے آپ کے کوئی نہیں جانتا اور اس محبت کے راز سے آپ کے سوا کوئی واقف نہیں، تو اﷲ کا شکر ہے کہ اختر نے اور میرے دوستوں نے اس جنگل کی زیارت کی ہے۔ جہاں مولانا رومی جیسے اﷲ والے ہوتے تھے ہم اس جنگل کو بھی دیکھ آئے۔جینے کا مزہ نعمتوں میں نہیں، اللہ پر فدا ہونے میں ہے اسی لیے کہتا ہوں دوستو! کہ جینے کا مزہ اﷲ پر مرنے میں ہے، سموسہ پاپڑ نعمت تو ہے لیکن اس کے بعد لیٹرین میں کیا مال نکالتے ہو؟ کیا بریانی ویسی ہی خوشبودار رہتی ہے یا رنگ اور بو بدلا ہوا ہوتا ہے، تو نعمتیں تو کھاؤ مگر نعمت دینے والے پرمرنے کے لیے کھاؤ، نعمت کو مقصود مت بناؤ۔ اﷲ کا نام لوگے تو دل میں دریائے