آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سارے عالم کی بلی میاؤں ہی بولے گی، سارے کتے بھوں بھوں ہی کریں گے، سارے عالم کا گدھا ایک ہی بولی بولے گا، سعودیہ کا گدھا عربی میں نہیں چلّائے گا۔ یہ بہت اہم سوغات میرے قلب کو اﷲ نے عطا فرمائی، یہ معمولی علم نہیں ہے۔ ایک بنگلہ دیشی نے بہت عمدہ بات بتائی کہ میاؤں کی تحقیق کیا ہے؟ بلی جو میاؤں کہتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ میں بھی آؤں دستر خوان پر؟ جو آپ اکیلے اکیلے ٹھونس رہے ہیں۔ تو وہ اپنے لیے انسان سے دسترخوان پرآنے کی پرمیشن(Permission) مانگ رہی ہے، میاؤںیعنی میں آؤں اکیلے اکیلے ٹھونسنے والو!کیفیاتِ احسانیہ قلوبِ اولیاء سے ملتی ہیں تو دوستو! بڑے دردِ دل سے بتلا رہا ہوں کہ ہم نے جن چیزوں کو اپنے قلب کی لذتوں کا سہارا بنایا ہے یہ سہارے ختم ہونے والے ہیں، ہم مرجائیں گے یایہ سہارے مرجائیں گے، اور اگر زندگی میں اﷲ برکت دے تو ایک دن بڈھا عاشق اور بڈھی معشوقہ سب کا کیا حال ہوگا؟ ایک دن لذتِ حرام لینے کے بھی قابل نہ رہو گے، لہٰذا مبارک وہ جوانی ہے اور مبارک وہ حیات ہے اور مبارک وہ دل ہے جو اﷲ پر فدا ہونا سیکھ لے۔ اﷲ پر مرنا اور اﷲ پر فدا ہونا کتابوں سے نہیں آئے گا، کتابوں سے ہمیں اعمال کی کمیات اور مقادیر مل سکتی ہیں کہ مغرب کی تین رکعات ہے، مگر ہم کیسے سجدہ کریں، کیسے رکوع کریں، نماز میں کس طرح اپنے قلب کو اور روح کو بچھا دیں ؎ تیرے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی زبانِ بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی یہ کیفیاتِ احسانیہ صحابہ کو سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک سے ملی ہیں، اس لیے قیامت تک ایسا احسان اب کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا، یہ وہ امتی ہیں جن کو قلبِ پیغمبر سے احسان کی کیفیت منتقل ہوئی تواب نبی کا قلب کس امتی کو مل سکتا ہے ؟لہٰذا صحابہ کو جو احسانی کیفیت حاصل ہے ان کا ایک مشت جو اور گندم دینا ہمارے اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے بڑھ کر ہے، وجہ یہ ہے کہ اعمال کے درجات میں جو تفاوت ہے وہ بقدرِ کیفیاتِ احسانیہ ہے اور اﷲ والوں سے یہ کیفیاتِ احسانیہ لی جاتی ہیں، علم ایک نعمت ہے عمل مستزاد ہے مگر حقیقت میں اہل اﷲ کے سینوں سے اﷲ کی محبت کا درد اور کیفیاتِ احسانیہ ملتی ہیں۔ مدارس